Quantcast
Channel: تخیلات کی دنیا
Viewing all 90 articles
Browse latest View live

ہنسی کی اقسام

$
0
0
ہنسی کے اقسام
  
بچوں کی معصوم دلکش ہنسی 
السلام علیکم


آج رات میرے بچے سونے کے بعد میں بیٹھی سارے دن کاجائزہ لینے لگی تو اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کا معصوم ہنستا چہرہ اور باتیں یاد آئیں تو وہ سوچکر مجھے بھی ہنسی آگئی مجھے ہنستا دیکھکر میاں حیران تھے انہیں حیران دیکھکر مجھے خیال آیا کے میری ہنسی ان کے لئے حیرانی اور تجسس کی وجہ بن گئی ہے۔

 
اور پھرایک بار میں تخیلات کی دنیا میں کھو گئی۔ ۔ غور کریں توہنستے ہوئے کو دیکھنے والے اور ہنسنے والے کے تاثرات کتنے مختلف ہوتے ہیں اور دیکھا جائے توکوئی ہنستا نظرآئے تو لگتا ہے وہ خوش ہے مگر ہر بارایسا نہیں ہوتا اس کی وجہہ الگ الگ رہتی ہے اس کے پیچھےچھپا جذبہ کا موجب جدا رہتا ہے ۔ کوئی میری طرح ماضی کی بات یاد کرکے ہنستے ہیں تو کبھی یہ خوشی کی انتہا کا سبب بھی ہو سکتی ہےاورکبھی یہ صرف اپنوں کو دیکھنے سے بھی میسر ہوجاتی ہےتو کبھی اپنوں کو خوش کرنے لائی جاتی ہے۔ کبھی تو ایک کی ہنسی دوسرے کی شرمندگی کا باعث بھی ہوتی ہے اور کبھی یہ ہی ہنسی کسی کی مجبوری بن کرنمایا بھی ہوتی ہےاور کبھی کسی ہنسی کے اندر صبر کا سمندر پنہاں ہوتا ہے اورتو کبھی اسے مصلحتاً ہونٹوں پرسجالیا جاتا ہے ۔ کبھی ہنسی، ہنسنے والے کی قوت برداشت کی عکاسی کرتی ہے ،کبھی دیوانوں کی آواز بن جاتی ہےاور کبھی ظالم کے نشترمیں تبدیل ہوجاتی ہے۔ بعض کوگھمنڈ سے ہنسی اڑانے میں مزہ آتا ہےاور بعض بزدل اور ڈرپوک خود کی ہی ہنسی اُڑوالیتے ہیں تو کبھی یہ ندامت میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی کبھی بھولے پن اور نادانی کو عیاں کرتی ہے۔اور کبھی ہنسی دل لگی اور کھیل ٹھٹھے کےلئے بھی کیا کرتے ہیں ۔

پتہ نہیں کیوں پھر بھی یہ ہنسی، خوشی ہی کی علامت سمجھی اور مانی جاتی ہے اس کو پانے کے لئے ہر ایک بے چین رہتا ہے مگر کسی کے پاس ٹک کر نہیں رہتی ۔ اللہ پاک ہم کو ایسی ہنسی عطا کر جواپنے اور دوسروں کی خوشیوں اور دلی سکون کاباعث بنے۔ ہنسی کو لیکر مجھے اس وقت مخدوم محی الدین کا ایک شعر یاد آرہا ہے پیش خدمت ہےاور اس کے ساتھ ہی اجازات بھی چاھتی ہوں ۔


ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکرِناز


کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم





آپکی مشکور ہوں میرے تخیلات کی دنیا میں تشریف لانے کے لئے۔

کامیاب زندگی کا راز

$
0
0

السلام علیکم
میرے عزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں
کوئی زندگی کو "آگ کا دریا ہےاور ڈوب کہ جانا ہے" کہتے ہیں تو کوئی "زندگی ایک سفر ہے سہانا"سمجھتے ہیں اور کسی کا خیال ہے کہ "زندگی ہر قدم ایک نئی  جنگ ہے"اور کسی کو لگتا ہے کہ"زندگی  نام ہے مرمر کے جیئے جانے کا"اور بعض بعض اسے آزمائشی دور سےتعبیر کرتے ہیں ۔ کوئی "زندگی کے رنگ کئی رے"، گاتے نظر آئےگے۔ تو کوئی یہ شعر پڑھتے ہونگے"زندگی نام ہے ایک جہد مسسل کا"تو کوئی یہ شعر پڑھتے اظہار خیال کرینگے "عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی"

کسی کے مدنظر زندگی مال و دولت حاصل کرنا ہے تو کوئی زندگی کا مقصد شہرت نام کو مانتا ہے۔ کوئی محبت کرنے کروانے کو زندگی کا حاصل مانتے ہیں ۔
    بحرحال جس کو جس چیز کی اہمیت زیادہ لگے اور اپنی اپنی زندگی سے جو نتائج اخذ کرتے ہیں اسی کی روشنی میں اظہار رائے کر دیتے ہیں  اگر آپ غور کریں تو آپ کو ہر خیال سچ لگے۔ انسان کی زندگی میں کئی اتار چڑھاو  آتے ہیں  تو کبھی کبھی زندگی  آگ کے دریا سے کم نہیں لگتی اور جب ہم اچھے حالات سے گزرہے ہوتے ہیں تو ایک سہانا سفر ہی لگنےلگتی ہے ۔ کوئی زندگی کی دشوار رہ میں ہمت والا ہو تو زندگی کو جنگ ہی کہے گا اور کوئی لڑتے لڑتے تھک ہار جائے تو مرمر کے جینے کی فریاد کرینگے اور کبھی جہد مسلسل کا دور طویل ہوجائے تو آزمائش کا خیال آتا ہے اگر کوئی دیدہٗ دری سے زندگی کو دیکھے گا تو اسے زندگی کے کئی رنگ نظر آئنگے۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ جیسے عمل کروگے اس کا صلہ ویسا ہی ملے گا  ۔
اس لئے ہمیں اچھے اعمال کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور ساتھ ساتھ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ  اللھم جنبنی منکراتِ الاخلاق( اے اللہ مجھے بری عادت سے بچا)  نہ صرف ظاہری آداب کا خیال رکھے بلکہ باطن کو بھی آراستہ کریں  ۔ دیکھا جائے تو ظاہری اعمال دلوں اور خیالات کا عکس ہوتے ہیں۔  آپ کا دل نیکی کی طرف راغب ہوگا تو چہرہ پر اس کی چمک دمک عیاں ہوگئی اس لئے ہمیں اپنے باطن کوپہلے درست کرنا چاہئےپھر ہمارا ظاہر خودبخود بہتر ہوجائیگا ۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم کہاں سے اور کیسے سیکھے اچھے اعمال تو  ہمارے پیارے رہبر و رہنما حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق و آداب کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ آپ کی ہر عادات طیبہ و اخلاق حمیدہ ہمارے لئے  ایک نمونہ ہے اس منارہٗ نور کو قابل تقلید بنا کر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرلیں۔ اسی سے ہماری دنیا و آخرت کی زندگی کامیاب ہوگی ۔اور  ہم اپنے لئے اور دوسروں کے لئے باعث نجات بنے گے۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  گم کردہ راہ کے راہ نما ہیں ۔
 اللہ تعالیٰ ہمیں اتباع رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی توفیق دے آپ کی تعلیمات پر عمل کرکے زندگی سنوارنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ تو فیق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
بلاگپر تشریف لانے کا دلی شکریہ

۔۔

تجدید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک افسانہ

$
0
0

تجدید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک افسانہ
  



, ہیلو، ہیلو

السلام علیکم ۔۔ ۔ ۔کیسی ہو۔ ۔ ۔ ہاں ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔ کیا ،عرفان نے باس سے جھگڑا کرکے نوکری چھوڑ دی? مگر کیوں ?۔ ۔ ۔ چھٹی کےلئے ۔ ۔ ۔ نہیں شاید امی کی طبیعت خراب ہو مجھے پریشان نہ کرنا چاھتے ہوں ۔ ۔ ۔ کیا وطن، نہیں ۔ ۔ ۔۔۔ اچھا اچھا مکرم بھائی مجھے سمجھانے کہہ ہیں ۔ ۔ ۔ چلیے . . . اللہ حافظ* * مکرم بھائی جو عرفان کے ساتھ آفس میں ملازم ہیں انکی بیوی سے بات کرکے وہ بہت دیر تک ریسئیوار ہاتھ میں تھامے سوچتی رہی کہ عرفان کو کیا ہوگیا ہے ہر وقت موڈ خراب رہنے لگا ہے پانچ سال سے زیادہ شادی کو ہوا۔اسنے کیا کچھ نہیں دیا۔ ایک اعلی نو تعمیر رہائشی بستی میں نیا گھرنمونے میں نادر اورسجاوٹ بےمثال،سامان سے لڈا گھر، گاڑی سب ہی  میسر تھا۔ میں جس جیز کو پسند کرتی وہ دوسرے دن گھر میں موجود پاتی کسی دوکان پرا یک سے زیادہ کسی چیز کودیکھتی تووہ خرید لی جاتی میرے ہر آرام کےلئے اپنےآرام کی قربانی دینے میں خوشی محسوس کرتے,ہر جگہ ہر معاملہ میں مجھے ملحوظ خاطر رکھتے ایک دن میں نے کمپیوٹر کوبتاکر کہا تھایہ تو شو پیس ہےانٹر نیٹ  کنکشن کے بغیر ایسا ہے جیسے بغیر روح کے بدن تو پھر دوسرے دن ہی نیٹ آگیا ہم نے دودن تک دوست رشتہ داروں سے فون کر کر کےآی ڈی لیتے ایڈ کرتے رہیےپھر کئی دن مطلوبہ سائیڈوں کو ڈھونڈ ڈھانڈ کردیتے .

 ہم ایک سائیٹ تلاش کررہے تھے کہ چیٹ روم پہچگئے دونوں نے ملکر خوب انجان لوگوں سے باتیں کی ۔ مجھے اتنا بھی  اچھا نہیں لگا جتنا کے انہیں پھر عرفان نے روز کی عادت بنالی میں اکتا کر ساتھ بیھٹنا چھوڑ دیا
افف کچھ دیر میں عرفان آتے ہی ہونگے کچھ چاے کے ساتھ بنالو۔خیالوں کے بھنور سے نکل کر کچن کی طرف کئی کچھ وقت گزرا ہی تھا کہ عرفان کے گاڑی کی آواز آئی پھرعرفان اندر داخل ہوے ۔چاے کا ٹرے بیڈروم میں رکھے ہوئے صوفہ کے سامنے میز پر رکھا ۔عرفان کو آتے ہی بیڈ روم میں چاے پینا  بہت پسند تھامیں پلنگ پر بیٹتے ہوے حال احوال پوچھی تو غور سے دیکھتے ہوے صرف آنکھوں کو چھپک کر جواب دیا پھر کچھ وقفہ سے میں نے آفس پر فون کرنے پر نا اٹھا نے کے بارے میں کہا تو تیوری چڑھا کر بہت ناراض ہوئے کہنے لگے آفس کام کرنے جاتا ہوں ۔ تم سے گھپے مارنے نہیں۔ خبردار جوتم نے آئندہ کبھی فون کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔ جہاں ہو وہی رہو۔


انکے یہ حاکمانے جملہ سنکر میں آمنا صدقنا کو بہتر سمجھکر چپ رہی ۔ جب اقتدار واختیار ملتا ہے تو اعتدال اورتوازن رخصت ہوجاتا ہے ۔ بے قدری ہرایک ہی کو ناگوار گزرتی ہے ۔ ذلت سے دل بجھ جاتا ہے ۔ مجھےعرفان کے رویہ کودیکھکرمسلمان ہونے کے ناتہ مجھے قرن اوٌل کی یاد آگئی سنت کی کسوٹی پر گھستے ہی ساراملمع اتر گیا ۔ کتنا معیاراورمزاج کا فرق ہے زمین آسمان سے بھی زیادہ ،میرا حق کیا ہے احساس دیلاؤں ! نہیں میری حیثیت نقارخانے کے طوطی سے بھی کمتر ہوگی ہے ۔ اب چپ ہی رہنا مناسب ہے ۔


عرفان کے سیل فون نے مجھے اپنے طرف متوجہ کرلیا وہ ریسیپشن کا بہانہ کرکے باہر کی طرف بڑ گئے ۔ میرے اندر شک کے جراثیم پنپنا شروع ہوے میں نے باہر کے دروازے کی آڑ میں باتیں سنے کی کوشش کی تو مجھے لگا کہ زمین گھومنے لگی ہے۔ وہ کہہ رہے تھےمیں تم سے ملنے اب  دو دن ہیں . پھرصرف اور  صرف ہم ہونگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نوکری تو پھر مل جایگی  ۔ ۔ ۔ ۔کیا نہیں کوئی جایداد نہیں اور نہ بینک میں زیادہ پیسہ ہی ہیں تم ساتھ ہو تو میرے لئے کافی ہے۔ ۔اچھا رات کو نٹ پر بات ہوگی محبت کے اقرار کے بعد عرفان آنے لگے میں اپنے آپ کو بڑی مشکل سے بیڈ روم تک لا سکی سارے کمرہ کو بغور دیکھی تو  سب ہی غم خوار لگے گھڑی کی سسکیاں،گلدستہ میں سجے پھولوں کا ہل ہل کر تسلیاں دینا , مجسم ندامت کمپیوٹرکا بنا کھڑا رہنا, فون کا درد سے چیخنا سب ہی درد کے ساتھی لگے ۔ ۔ ۔


نہیں اب میں  یہاں نہیں رہونگی۔ عرفان کو میں نے بھی تو کتنی عزت محبت دی ہر بار ان کی خدمت کو تیار ،ہمیشہ پسند نا پسند کا خیال رکھا ۔ وہ ناشکر گزار ہیں بد دماغ اور بے حس ہوگئے ہیں ان کومیری ضرورت نہیں تو مجھے بھی انکی ضرورت نہیں میں روتے  جانے کب سو گئی اور عرفان کب تک کمپوٹر سے لگے بیٹھے رہے مجھے خبر ہی نہ ہوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 دوسرے دن عرفان خلافِ توقع  صبح آفس جاچکے تھے ۔
فون کی گھنٹی بچنے لگی اٹھایا تودوسرے طرف مکرم بھائی تھے کہہ رہے تھے بھابی آپ گریٹ ہو ، مہان ہو میرےلاکھ سمجھا پربھی جو نہ ہو سکا وہ آپ نے کردیکھایا۔ میں نے نہ سمجھتے ہوئے پوچھا ,آپ کیا کہہ رہے ہیں تو بولے کہ عرفان نے با س سے معافی مانگ کر نوکری بحال کرلی ہے اور جانے کا ارادہ بھی ملتوی کرلیا ہے ۔ جلدی میں ہوں رات میں فون کرونگا۔ ایک سانس میں سب کہکر فون رک دیا۔میں اس شدنی پر حیران تھی۔ میری جستجو بڑی اور میں کمپیوٹر میں ہسٹری چیک کرنے لگی،آخرمجھے رات والی چیٹنگ مل گئ جس میں حاصل گفتگو یہ تھی کہ عرفان نے پیار محبت کا یقین دلایا تھا اور دوسری طرف سے موٹی رقم کی مہر میں ڈیمئنڈ تھی عرفان نے آخر میں لکھا تھاکہ میں نے اپنی زندگی ،کیریر سب کچھ داو پر لگایا اورتم  خود غرص نکلی جی کرتا ہے تمہارا خون کردوں
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عرفان روزکی طرح آفس سے آکر صوفہ پر بیٹھے چاے پی رہے تھے۔ وہ چاے ختم کرکے پیالی رکھکر پلنگ پر میرے قریب سر جھکا کر بیٹھ گئے ۔ جھکے ہوے سر کو کچھ اور جھکا کر انہوں نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔
بہت کچھ کہنے میرے ہونٹ گھولےہی تھے کہ دل نے زور سے دھڑک کر روک دیا اور ساتھ میں سوال بھی کرڈالا ۔‘‘کیاآندھی طوفان کے بعد بستی نہیں بستی کیا اس کے مکین اسے اُجڑتا چھوڑ جاتے ہیں‘‘ مجھے لگاجیسے کمرہ میں محبت ،اعتماد ،خوشی کی فضاءچھاگئ ہو ۔ کمپیوٹر فخر سے کچھ اور اکھڑ گیا ہو،گلدستہ کے پھول ایک دوسرے سے خوشی میں گلے ملنے لگےہوں ،گھڑی گنگنانے لگی ہو، فون کے قہقہ نے مجھے چھونکا  


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

قصہ ایک تقریب کا

$
0
0


السلام علیکم



بہت پرانی تحریر جو پوسٹ کرنے سے رہ گئی تھی آج نظر آئی تو شائع کررہی ہوں ۔ ہوسکتا ہے آپ کو اچھی لگے یا پھر کوئی اور بھی آپ میں سے اس تجربہ سے گزرچکے ہوں ۔

مجھے ایک شادی کی تقریب میں جانے کا موقع ملا وہاں بِیٹھے بیٹھے کچھ اپنے تاثرات قلم بند کئے تھے وہ حاضر ہیں ۔



آج پهر شادی کی دعوت ہے بخار کے باوجود دوا کهاکر ہاته منہ دهو کر خود کو تازہ دم کرکے آئی ہوں دوستی کے لئے اتنا تو کرنا ہی چاہئے نا

مگر یہاں آنے کے بعد دلہا دلہن اور ان کے قریبی لوگ سب ہی ندارد ہیں بہت انتظار کے بعد ساڑهے نو بجے دلہے راجا آئے ہیں دلہن تو ابهی تک غائب ہے . ان کو خود پر کنٹرول نہیں وقت کی پابندی نہیں کرسکتے تو آٹه بجے کا وقت رقعہ پر لکهنے کی کیا ضرورت ہے ۔

اب کی بار انڈیا آنے پرکئی شادیوں میں شرکت کا موقعہ ملا میں تو پہلی بار کےتلخ تجربہ کے بعد جلدی جانے کی مخالفت کرتی مگر میاں نہ کبهی مانے ہیں نہ مانےگے ہر بار یہ ہی کہتے ہیں کہ "کیا معلوم یہ لوگ وقت کے پابند ہو"کوئی پابند تو نہ نکلے مگر مجهے تو صاحب کی بات کے پابند ہونا ہی پڑتا ہے .


دلہن بیوٹی پارلرمیں بیٹهی دلہے میاں کے لئے سولہ سنگھار کرواتی ہے مہمان اپنے ٹی وی پروگرام دیکهکر آتے ہیں .اب تو قاضی حضرات پہلے کے جیسا شہر کے اندیشہ میں دبلی بهی نہیں ہوتے بلکہ دلہا دلہن کی تیاری کے بعد ایک فون کرنے پرکچه دیر میں آجاتے ہیں .سیل فون کا دور ہے ادهر دلہن بیوٹی پارلر میں تیار ہوئی دلہے میاں کو اطلاع ملی اور ایک کال قاضی صاحب کو لگادیا جاتا ہے اور وہ کثیر رقم کی امید پر بھاگے آجاتے ہیں .


اب تو ساڑهے دس بجنے والے ہیں.دلہن کا سجا ہوا اسٹیج بے فکر ماوں کےبچے دلہن کے استمعال سے پہلے پهول نوچ کراور تکیوں سے گهر گهر کهیل رہے ہیں.میں آئی وقت کچه لوگ تهے لیکن اب تو ہال بهی مہمانوں سے کچها کهچ فل ہوگیا ہے . چلیے اب بہت آپ سب سے کہہ کر جی ہلکا کرلیا ہے .میرے اطراف سجی سجائی دلہنیں، میرا مطلب ہے خواتین جلوہ افروز ہونے لگی ہیں ان پر بهی اپنی کچھ نظرکرم ڈالو آخر یہ ہمارے ہی لئے تو سنگار کرکے آئی ہیں نہیں توپھر ان کے ساته زیادتی ہوگی۔

اس شادی کے ہنگاموں میں رتی وقت کے لئے بھی میرے دماغ سے یہ کوفت دور نہ ہوسکی اور خود سے سوال کرتی رہی کہ  ہم مسلم ایسے کیوں ہیں جبکہ نماز، روزے، حج جیسی عبادتوں کے لئے بهی اوقات کی پابندی ضروری ہوتی ہے .پھر یہ کہکر دل کو تسلی دی کہ  ہم تو دل کی ماننے والے لوگ ہیں اور دل تو دیوانہ ہوتا ہے۔

شکریہ بلاگ پر تشریف لانے کے لئے۔
۔

رشتہ ازواج

$
0
0

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

محترم بھائیوں اور پیاری بہنوں

محبت اللہ کی  پہلی نعمت ہےجو ابا آدم اور اماں حوا کو عطا ہوئی ۔ یہ عرش اعظیم سےاترتی ہے اور دلوں میں گھر کر جاتی ہے ۔ محبت میں استحکام و استقلال سچی محبت کی نشانی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو محبت کے معنی ہی بدل جاتے ہیں ۔ محبت نام ہے دو لوگوں کو متحد کرنے کا  یہ توحید کی روح ہے ۔ محبت غیریت کو مٹا دیتی ہے ۔

دنیا میں اتنے رشتہ ہیں اتنے متعلقہ لوگ ہوتے ہیں ہر ایک سے کسی نہ کسی

وجہہ سے  دل میں محبت رہتی ہے یا پیدا ہوہی جاتی ہے ۔کسی سے خون کا رشتہ ہوتا ہے تو کسی سے احسان کا اور کسی سے اخلاص کا ۔۔۔۔ رشتوں کے اتنے نام ہیں جو سب ہی جانتے ہیں کہنے کی  حاجت نہیں مگر ان سارے رشتوں میں وہ کونسا رشتہ  ہوسکتا ہے جس سے ہم شدید محبت کرتے ہیں جس میں  اپنا میں بھی فنا کردیتے ہیں جس کی بنیاد ہی محبت پر قائم ہوتی ہے۔ میرے خیال سے وہ ہے انسان کا پہلا رشتہ ،رشتہ ازواج، جس میں دو انسان مل کر ایک ہو جاتے ہیں ۔ محبت ،عزت اولاد، مال و دولت ،ہر چیز ایک دوسرے کی ہوجاتی ہے ۔ ضرورت زندگی ،رہن سہن سب ساتھ رہتا ہے ایک دوسرے کی خوشی و غم کے ساتھی ہوتے ہیں گویا  دونوں ایک جان ،ایک زبان ایک دل ہوجاتے ہیں  اور ان کا  مقصد حیات تک ایک ہو جاتا ہے

محبت پہلے صورت سے ہوتی ہے پھر اخلاق و عادات سے محبت میں رنگ بھر جاتا ہے پھر ذات سے محبت ہو جاتی ہے اور یہ محبت امر کہلاتی ہے ۔

محبت کو لازوال کرنے خود کو مٹانا پڑتا ۔ اپنا سب کچھ محبوب کے حوالے کردینا پڑتا ہے ۔ دوسروں کی پسند کو اپنی پسند بنالے ۔اپنا آرام اپنی خواہش سب کچھ محبوب کے تابع کرنے کے بعد ہی کامل محبت حاصل ہوتی ہے ۔

اگرمیاں بیوی کی محبت میں یہ خوبیاں نہ پیدا ہوئی تو یہ  پیارا رشتہ ایک مزاخ میں تبدیل ہو جاتا ہے  اور اس ازلی رشتہ کو تماشہ بنا لیا جاتا ہے۔ان کو آپس میں مل کر ہر بات کو طے کرنا چاہئے ۔ جہاں کسی دوسرے کواپنے مسئلہ میں  شامل کیا تو سمجھوں کہ اس رشتہ کی یکتا جو اس رشتہ کی درمیانی اہم کڑی ہوتی ہے وہ ختم ہوگئی۔پھر یہ خوبصورت رشتہ انتہائی بد صورت بن جاتا ہے ۔

 میاں کو چاہئے کہ بیوی کا اپنے گھر عزیر اقارب کو چھوڑ آنے کا خیال کرے اور چھوٹے بڑے غلطیوں کو در گزار کرے اور بی بی کو بھی چاہئے کہ وہ میاں اور سسرالی کو بدلنے کی کوشش کے بجائے خود کو اس ماحول کے سانچے میں ڈھلنے کی کوشش کرے اور دونوں ہی ایک دوسرے کو  نیکی کی تلقین   اور برائی کی نشاندہی  کرے مگر بہت ہی سمجھداری سے ایسا کرے کہ نکتا چینی نہ لگے ۔اگر یہ ممکن نہ ہو توخود عمل کرکے انہیں بتلائیں۔ صحبت کا اثر بھی خوب ہوتا ہے ۔ اس رشتہ کی اہمیت کو سمجھے اسی سے دنیا میں آگے نسلیں بڑھتی ہیں ان کا مثبت رویہ بچوں میں بھی منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اس رشتہ کا ساتھ توان شاٗاللہ اخرت میں بھی ہوگا ۔  پھر کیوں نہ ہم اس کے حقوق اہمیت کا خیال جی جان نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ

ماں کا دل

$
0
0


السلام علیکم

میرے اچھے بھائیوں اور پیاری بہنوں

عورت کے دل کو اللہ نے لگتا ہے خاص مٹی سے گھڑا ہوگا اور خاص طور سے جب وہ ایک ماں بھی ہو ۔اور میں نے اپنے تجربہ سے دیکھا ہے کہ ایک عورت کی جب اللہ سنتا ہے تو اس کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں فوراً قبول کرتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ پاک عورت کو آزماءش میں ڈالنا چاہتا ہے تو بھی اولاد کی وجہہ سے ہی آزماتا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ عورت کی اس سے سخت سزا ہوہی نہیں سکتی ۔ماں کے دل کا حال اور احساس اس تازہ بہ تازہ خود پر گزرے اس واقعہ سے شایدآپ کو معلوم ہو۔

آٹھ تاریخ کو بیٹے نے ایک ماہ کی چھٹی گزارنے اپنے سسرال امریکہ کا پروگرام بنایا ۔اس کو جانے کے لئے چھوڑنے ہم سب ایر پوارٹ فیملی کے ساتھ گئے۔ سامان ویٹ کیا اور بوڈینگ کارڈ لیا گیا ۔کچھ دیر ساتھ بیٹھنے کے بعد ایک گھنٹے کا ٹائم ابھی باقی رہنے کے باوجود والدین اور دوسرے رشتہ دار کو تکلیف نہ دینے کے خیال سے وہ اندر چلے جانے کا اردہ کیا اور سب سے مل ملا کر وہ بیوی بچوں کے ساتھ اندر چلے گئے ۔

 ماں کے دل نے اپنے احساس کا اظہار باوجود ضبط کہ آنکھوں سے کردیا اور چپکے سے اپنےآپ سے بیٹے کی جدائی کی شکایت کرلی اور اللہ کی مرضی پر راضامندی میں سر جھکا کر سب کے ہمراہ گھر واپس آگئے ۔مغموم ماں بستر پر لیٹے خالی خالی نظروں سے چھت دیکھنے لگی اور پھرکچھ دیر بعد فون کی بیل نے بیدلی کی کیفیت کوفراموش کردیا ۔ عمرہ کے رش کی زیادتی نے چیکنگ میں دیر کردی اور پلین مس  ہوگیا، رات زیادہ ہوگئی، بچوں کا ساتھ ہے آکر لے جائیں بیٹے نے فون پر کہا ۔ ہم جلدی سے ایر پورٹ بھاگے بھاگے گئے پھرواپسی میں بیٹے نے راستہ بھربہت افسوس کیا اپنے اور اپنے بچوں کی تھکن کا ذکر کیا سیٹ آگے بڑھانے پر اضافہ فیس دینے کا بتایا ۔

 ماں کا دل پھرایک بار تڑپ اٹھا اور دل ہی دل میں خود کو الزام دینے لگی کہ دل میں بھی تو نے ایسا کیوں سوچا تو ہی نے اپنے بیٹے کا دل دکھا یا ہے  کیوں اس کا نہیں سوچا اپنی خوشی کیوں چاہی ۔ وہ شہ رگ سے قریب رہنے والے نے تیری یہ بات سن لی اور مان لی ۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا  ۔ میں اسی سے معروضہ کرونگی جس کے ہاتھ میں ساری دنیا کی بھاگ ڈور ہے ۔پھر دعائیں من ہی من مانگنے لگی ہے ۔ اے اللہ پاک اس کو سیٹ آسانی سے بنا پیسے بھرے مل جائے جب بغیر تجھ سے مانگے تو نے مجھے بیٹے کا ساتھ دیا میں ہر ہر پل کے لئے تیری شکر گزار ہوں اب تو تیرے کرم سے اتنی آسانیاں ہوگئی ہیں دور رہ کر بھی ایک انسان قریب سے بھی زیادہ قریب تر لگنے لگاتا ہے بس انسان کو دل سے قریب ہونا چاہئے ایک ماں اپنے بچے کو پریشاں نہیں دیکھ سکتی بدلہ میں اس پر مصبت کے پہاڑ ہی کیوں نہ ٹوٹ جائیں ۔

دل سے مانگی دعا رد نہیں ہوتی اللہ نے بنا اضافہ پیسوں کے اسی وقت کی دوسرے دن کی سیٹ دیلادی اور پھر ماں نے اپنے دل کو منا لیا کہ اب تو چپ ہی رہ کبھی یہ کبھی وہ کہنے کی ضرورت نہیں اور پھر ایر پورٹ سے باہر ہی باہر چھوڑ آئے بہانہ بنادیا کہ کہیں پھر دیر نہ ہوجائے۔اصل میں تو خود پر اعتبار نہیں تھا کیا پتہ پھر یہ بیٹے کے قرب کے لئے مچل جائے ایک ماں کے دل کا کوئی بھروسہ نہیں ۔

بیٹا لمحہ بہ لمحہ دور ہوتا رہا اور ماں کو لگتا رہا کہ وہ اس سے قریب سے قریب تر ہورہا ہے پہلے ساتھ رہتے اس کا خیال یوں ہر پل نہیں ہواکرتا تھا مگراب ہر ساعت اسی کا دھیان لگا رہتا ہے ۔۔
اللہ پاک ؛ جتنا دل ،زبان ،خیال، محبت رضا اور محویت ایک ماں کو اولاد کے لئے ہر دم  رہتی ہے۔اس سے کئی گنا زیادہ ہم تیرے لئے کیا کریں ۔ 
 
بلاگ  پر تشریف لانے کا شکریہ

تذكرة القرأن

$
0
0

تذكرة القرأن
رمضان کا بابرکت مہینہ ہم سب پر سایہ فگن ہے ہمیں چاہیے کہ اس مبارک ماہ میں اپنے پیدائش کے مقصد کو یاد رکھے اور زیادہ سے زیادہ عبادت کی کوشش کرے ۔ کیوں نہ ہم ایسی عبادت کریں جس میں وقت کم لگے اور ثواب زیادہ ملی کیوں نہ ہم ایسی عبادت کو پسند کریں جس کوہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اصحاب رسول نے پسند فرمایا ۔آج میں آپ کی توجہ ایک ایسی آسمانی کتاب کے طرف مبادلہ کرنا چاہتی ہوں جو ہمارے آخری رسول محمدﷺ پر نازل ہوئی جس کو ہم قرآن مجید کہتے ہیں جس کے پڑھنے اور پڑھانے کا اللہ پاک نے خود حکم فرمایا ہے۔


صیحح بخاری میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعایٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا؛ تم میں بہتر وہ شخض ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔۔۔۔
خود سیکھنا اور دوسروں کو سیکھانا دونوں ہی کے لئے مستقیل خیر و بہتری ہےاور کیوں نہ ہو یہ اللہ پاک کا کلام ہے ۔اللہ پاک قرآن مجید میں خود فرماتا ہے ۔ قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا اے رسول کہدیجئے کہ اگر سب انسان اور جن بھی مجتمع ہو جائئیں اور ایک دوسرے کی مدد و اعانت بھی کریں اور پھر بھی وہ اس قرآن جیسی کوئی کتاب بنانا چاہیں تو ہرگز ہرگز ایسا نہ کر سکیں گے ۔
اس دعویٰ کے الفاظ کی شوکت اور قوت پر غور کرنے سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ قرآن کلام اللہ کا ہے ۔

صحیح مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ تعاٰلٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعاٰلٰی اس کتاب سے بہت لوگوں کو بلند کرتا ہے اور بہتوں کو پست کرتا ہے یعنی جو اس پر ایمان لاتے اور عمل کرتے ہیں اُن کے لئے بلندی ہے اور دوسروں کے لئے پستی پس ہم خود پر لازم کرلیے کہ اپنے درجات کی بلندی کے لئے تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوجائے اور اپنی بہتری کا سامان کرلیں

 کیونکہ ترمذی و الدارمی میں ابو سعید رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد منقول ہے کہ حق سبحان وتقدس کا فرمان ہے کہ جس شخض کو قرآن شریف کی مشغولی کی وجہہ سے ذکر کرنے دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی میں اس کو سب دعائیں والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی شانہُ کے کلام کو سب کلاموں پر ہی فضیلت ہے جیسی کہ خود حق تعالٰی کو تمام مخلوق پر ۔ جب کوئی شخض اس کی تالیف کا اہتمام کیا کرتا ہے تو فطرتاً اس کی طرف التفات اور توجہ ہوا کرتی ہے اس لئے حق تعالٰی کے کلام کا ورد رکھنے والے کی طرف حق سبحان وتقدس کی زیادتی توجہ بھی بدیہی اور 
یقینی ہے جو قرب کا سبب ہوتی ہے۔

نسائی و ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ حق تعالٰی کے لئے لوگوں میں سے بعض لوگ خاص گھر کے لوگ ہیں ،صحابہ نےعرض کیا کہ وہ کون لوگ ہیں فرمایا کہ قرآن شریف والے کہ وہ اللہ کے اہل ہیں اور خواص ہیں ۔

اب ہمیں غور کرنا چاہیے کے اللہ پاک کی یہ مہربانی ہے کہ ہمیں اللہ کی قربت ونظر عنایت پانے کے لئےکتنا آسان و سہل طریقہ سے اللہ پاک کا تقرب ومقرب بنے کا کیا اچھا موقعہ عنایت فرمایا گیا ہے۔بس ذرا سی توجہ اور محنت سے اللہ کےاہل اور اس کے خواص میں شمار کئے جاتے ہیں اور اللہ کے پاس خاص شمار ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

اورایک بار پھر ترمذی و دارمی ہی سے نقل ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخض کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھے گا اُس کو ایک نیکی ملے گی جو دس کے برابر ہوگی میں نہیں کہتا الم ایک حروف ہے بلکہ الف ایک حرف لام دوسرا حرف ہے میم تیسرا حرف ہے۔ آپ لوگ خود ہی اس حدیث سے اندازہ کرلیجئے کہ قرآن کے ہر ہر حروف کے بدلہ ہم کو کتنی نیکیاں مل رہی ہیں پھر کیوں نہ ہم اس کو زیادہ سے زیادہ پڑھکر نیکیوں کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جائے ۔


امام احمد و ترمذی و ابو داود ونسائی نے عمر رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے
 کہ رسول اللہ نے فرمایا صاحب قرآن سے کہا جائے گاکہ پڑھ اورچڑھ اورترتیل کے ساتھ پڑھ جس طرح دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا تیری منزل آخر آیت جو تو پڑھے گا وہاں ہے

شرح احیاء میں لکھا ہے کہ ہر آیت ایک درجہ ہے جنت میں پس قاری سے کہا جاوے گا کہ جنت کے درجات پر تلاوت کے بقدر چڑھتے جاوے ۔ جو شخض قرآن پاک تمام پورا کرلے گا وہ جنت کے اعلٰی درجے پر پہچےگا ،اور جو شخض کچھ حصّہ پڑھا ہوا ہوگا وہ اس کی بقدر درجات پر پہنچے گا ۔ بالجملہ منتہاے ترقی منتہائے قرآت ہوگی۔

معاذجہنی رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخض قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جاوے گا جس کی روشنی آفتاب سے بھی زیادہ ہوگی ۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو ۔ پس کیا گمان ہے تمہارا اس شخض کے متعلق جو خود عامل ہو ۔۔(رواہ احمد ابوداود و صححہ الحاکم)۔

فضائل قرآن مجید میں حضرت محمد زکریا صاحبؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں قرآن پاک کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی برکت یہ ہےکہ اس کے پڑھنے والے کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جاوے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بہت زیادہ ہواگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو ،یعنی آفتاب اتنی دور سے اس قدر روشنی پھیلاتا ہے اگر وہ گھر کے اندر آجا ئے تو یقیناً بہت زیادہ روشنی اور چمک کا سبب ہوگا تو پڑھنے والے کے والدین کو جو تاج پہنایا جاویگا اس کی روشنی اس روشنی سے زیادہ ہوگی جس کو گھر میں طلوع ہونے والا آفتاب پھیلا رہا ہے اور جب کہ والدین کےلئے یہ ذخیرہ ہے تو خود پڑھنے والے کے اجر کا خود اندازہ کر لیا جاوے کہ کس قدر ہوگا کہ اس کے طفیلیوں کا یہ حال ہے تو اصل کا حال بدرجہا زیادہ ہوگا۔ کہ والدین کو یہ اجر صرف اس وجہہ سے ہوا ہے کہ وہ اس کے وجود یا تعلیم کا سبب ہوئے ہیں ۔

آفتاب کے گھر میں ہونے سے جو تشبیہہ دی گئی ہے اس میں علاوہ ازیں کہ قرب میں روشنی زیادہ محسوس ہوتی ہے ایک اور لطیف امر کی طرف بھی اشارہ ہے وہ یہ کہ جو چیز ہر وقت پاس رہتی ہے اس سے انس و الفت زیادہ ہوتی ہے اس لئے آفتاب کی دوری کی وجہ سے جو اس سے بیگانگی ہے وہ ہر وقت کے قرب کی وجہ سے مُبدّل بہ انس ہو جاوے گی تو اس صورت میں روشنی کے علاوہ اس کے ساتھ موانست کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس طرف بھی وہ اپنی ہوگی کہ آفتاب سے اگرچہ ہر شخض نفع اٹھا تا ہے لیکن اگر وہ کسی کو ہبہ کردیا جاوے تو اس کے لئے کس قدر افتخار کی چیز ہو ۔

آپ دیکھے کہ قرآن کو حفظ کرنے کی کیا فضیلت و برکت ہے کہ شرح احیاء میں ان لوگوں کی فہرست میں جو قیامت کے ہولناک اور وحشت اثر دن میں اللہ کے سائے کے نیچے رہیں گے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بروایت نقل کیا ہے کہ حاملنِ قرآن یعنی حفاظ اللہ کے سائے کے نیچے انبیاء اور برگزیدہ لوگوں کے ساتھ ہونگے.


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخض نے قرآن پڑھا،پھر اس کو حفظ یاد کیا حلال کو حلال جانا حرام کو حرام ۔حق تعالٰی اس کو جنت میں داخل فرمادیں گے اورر اس کے گھرانے میں سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول فرمایں گے جن کے لئے جہنم واجب ہوچکی ہو ۔(ترمذی وابن ماجہ )۔  


ان ہی کتابوں میں ایک اور حدیث سے قرآن مجید کے پڑھنے کے تاکید اور یاد کرنے والوں کی توصیف یوں بیان ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی سےروایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن سیکھو اور پڑھو کہ جس نے قرآن سیکھا اور پڑھا اور اس کے ساتھ قیام کیااُس کی مثال یہ ہے جیسے مشک سے تھیلی بھری ہوئی ہے جس کی خوشبو ہر جگہ پیھلی ہوئی ہے اور سیکھا اورسوگیا یعنی قیام اللیل نہیں کیا اس کی مثال وہ تھیلی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہے اوراس کا مونھ باندھ دیا گیا ہے


بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ابو موسٰی رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد نقل کیاہے کہ جو مسلمان قرآن پڑھتا ہے،اس کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیز ۔ اور جو مومن قرآن شریف نہ پڑھے اس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ خوشبو کچھ نہیں مگرمزہ شیریں ہوتا ہے ۔ اور جو منافق قرآن شریف نہیں پڑھتا اس کی مثال حنظل کے پھول کی سی ہےکہ مزہ بھی کڑوا اور خوشبو کچھ نہیں اور جو منافق قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال خوشبو دار پھول کی سی ہے کہ خوشبو عمدہ اور مزہ کڑوا۔

اس حدیث کے بارے میں مولانا زکریاؒ فرماتے ہیں۔
مقصوداس حدیث سے غیر محسوس شے کو محسوس کے ساتھ تشبیہہ دینا ہے تاکہ ذہن میں فرق کلام پاک کے پڑھنے اور نہ پڑھنے میں سہولت سے آجاوے ورنہ ظاہرہے کہ کلام پاک کی حلاوت و مہک سے کیا نسبت،ترنج و کھجور کو اگرچہ ان اشیاء کے ساتھ تشبیہہ میں خاص نکات بھی ہیں جوعلوم نبویہ سے تعلق رکھتے ہیں اورنبی کریمﷺ کے علوم کی وسعت کی طرف مشیر ہیں ۔

مثلاً ترنج ہی کو لے لیجئے منھ میں خوشبو پیدا کرتا ہے ،معدہ کو صاف کرتا ہے ،ہضم میں قوت دیتا ہےوغیرہ وغیرہ یہ منافع ایسے ہیں قراتِ قرآن شریف کے ساتھ خاص مناسبت رکھتے ہیں مثلاً منھ کاخوشبودارہونا،باطن کاصاف کرنا،روحانیت میں قوت پیدا کرنا۔ یہ منافع تلاوت میں ہیں جو پہلے منافع کے ساتھ بہت مشابہت رکھتے ہیں ۔ ایک خاص اثر ترنج میں یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ جس گھر میں ترنج ہو وہاں جن نہیں جاسکتا۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر کلام پاک کے ساتھ خاص مشابہت ہے معض اطباء سے میں نے سنا ہے کہ ترنج سے حافظ بھی قوی ہوتا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سے احیاء میں نقل کیا ہے کہ تین چیزیں حافظ کو بڑھاتی ہیں ایک مسواک دوسرا روزہ اور تیسرا تلاوت کلام اللہ شریف ۔۔۔۔

ابو داود کی روایت میں اس حدیث کے ختم پر ایک اور مضمون نہایت ہی مفید ہے کہ بہتر ہمنشین کی مثال مشک والے آدمی کی سی ہےاگر تجھے مشک نہ مل سکا تو خوشبو تو کہیں گئی نہیں ،اور بد تر ہمنشین کی مثال آگ کی بھٹی والے کی طرح سے ہے کہ اگر سیاہی نہ پہچے تب بھی دھواں تو کہیں گیا ہی نہیں ۔نہایت ہی اہم بات ہے ۔آدمی کو اپنے ہم نشینوں پر بھی نظر کرنا چاہیے کہ کس قسم کے لوگوں میں ہر وقت نشست و بر خاست ہے


بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر رضی اللہ عنہماسے رویت کی ہےکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ان دلوں میں بھی زنگ لگ جاتی ہے جس طرح لوہے میں پانی لگنے سے زنگ لگتی ہے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی جلا کس چیز سے ہوگی فرمایا کثرت سے موت کو یاد کرنے اور تلاوت قرآنِ مجید۔۔


قارئین اکرام اب ہم سب کو قرآن پاک کے پڑھنے کی فصیلت اور ثواب سے خوب آگاہ ہوگئے ہیں موت کا کوئی وقت معین نہیں ہم سستی کو چھوڑ کر اس مبارک ماہ جس میں اس کا نزول ہوا ہے اس میں کثرت سے تلاوت کا اہتمام کریگےاور کیوں نہ کرے جس وقت جب کوئی رشتہ ناتہ کام نہیں آتا سب کو اپنی پڑی ہوگی اس دن قرآن اپنے پڑھنے والے کے لئے جھگڑا کرے گا اور اللہ پاک قبول کرلے گا قرآن پاک کا دیکھنا چھونا پڑھنا سب عبادت ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے حضور سے وصیت فرمانے کہا تو حضور نے وصیت میں ایک یہ بھی فرمایا کہ تلاوت قرآن کا اہتمام کرو کہ دنیا میں نور ہے اور آخرت میں ذخیرہ ۔


بس حضور محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی اس وصیت پر میں اس مضمون کو ختم کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالٰی مجھکو آپ کو ہماری اولاد و متعلقین اور سب مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ تلاوتِ کلام اللہ کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
..

دکن میں عید

$
0
0

دکن میں عید

رمضان کا بابرکت مہینہ کے آنے سے رونقوں،رحمتوں , برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ اپنے اختتام پر عید کی نوید بھی لے آتا ہے ۔عید کی تیاری ہر طبقہ اپنی استطاعت کے لحاظ سے کرتے ہیں ۔اللہ کریم کے قانونِِ فطرت کے کیا کہنے امیر کو ثواب وجزادینے کا وعدہ کرکے غریبوں کی خوشیوں کا بندوبس فرماتا ہے ۔ زیادہ تررمضان میں نیکیوں کے حریص حضرات زکوتہ اور خیرخیرات کا اہتمام کرتے ہیں ۔عید کی آمد، کیا امیر کیا غریب سب کے لئے موجبِ مسرت ہوتی ہے ۔اس کی تیاری کئی دن پہلے سےشروع ہوجاتی ہے ۔ مرد حضرات جاب، روزے،تراویح کی نمازکے ساتھ ساتھ اپنے کنبہ کی عید کی تیاری میں کوشاںریتے ہیں تو خواتین سحری،افظار،تلاوت ،نماز کی مصروفیت کے باوجود سب کے لئے نئی کپڑے ،گھر کی تفصیلی صفائی اور شوپنگ میں مگن ہوتی ہیں ۔ نو بیاہ اور منگنی والی لڑکی کے گھر سسرال سے عیدی بھیجی جاتی ہے ۔ نوخیز لڑکیاں اور سہاگن عورتیں مہدی ہاتھوں پر لگاتی ہیں بچوں کی خوشی تو دیدنی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ماہ رمضان اختتام کے قریب آتا ہےشوپنگ عروج پر ہوتی ہےاورہرطرف خواتین وحضرات خریداری کرتے نظرآتےہیں چاہیے وہ چھوٹاہویابڑاامیرہوکے غریب کسی دانشوار کاقول ہے کہ کھانااپنے لئےاور پہنا دوسروں کےلئےکے مصدق لباس ہوکے زیوارت،چپل ہوکےچوڑیاں ہرکوئی ایک دوسرےپرسبقت لے جانےکی کوشش میں لگےرہیتے ہیں سب کو خوب سے خوب تر کی تلاش ہوتی ہے۔ ماہ ِرمضان ایسامہینہ ہے۔جس میں چھوٹے سے چھوٹےبیوپاری کا کاروباری بھی عروج پر رہتا ہےاور ان کی مارکٹ میں مانگ بڑجاتی ہے ۔ قلی قطب شاہ کے بسائے ہوے شہر حیدرآباد دکن کے قلبِ شہرچار مینار کی گود میں شاہ علی بنڈہ سے پرانے پل تک تو خلوت سےپرانی حویلی تک سامان سے لدی دوکانوں پر ایسے مناظردیکھے جاسکتے ہیں جس میں کوئی پھترگٹی سے لباس وعطریات خرید رہے ہیں تو کوئی سونے،چاندی اور نقلی زیورات کے لئے گلزار حوض سے کالی کمان کے چکر لگا ریے ہیں تو کوئی لاڈبازار سے چوڑیاں وسلمٰی ستارےاور میک اپ کی شاپنگ میں مصروف ہوتے ہیں تو کوئی کوئی گھر کی سجاوٹ کی اشیاء کی خریداری میں محو ہیں اور کوئی گھرآیے مہمان کی ضیافت کے لئے تیار کیاجانے والے پکوان کاخورد ونوش کے سامان کامیر عالم منڈی میں تول مول کررہے ہیں تو کوئی اس ہجوم کوصرف دیکھنےہی چلے آتے ہیں۔عید کے دن سے پہلے فجر تک بازار میں کاروبار چلتاہی رہتا ہے۔
عید کا چاند نظر آتے ہی سب اپنے سے بڑوں کو فرشی سلام کرتے ہیں چاند کی مبارک باد دیتے ہیں ۔ پھر صبح فجر سے اٹھکر مرد حضرات نہا دھو کر نئے کپڑے زیب تن کرکے شیر قورمہ نوش کرنے کے بعد عیدگاہ یا مکہ مسجد جاکر عید کی نماز ادا کرتے ہیں اور ان کے آنے تک خواتین پکوان سے فارغ ہوکر چھوٹے بچوں کی تیاری کےبعدخود بناوسنگار کرکے نماز سے واپسی کا انتظار کرتی ہیں اڑوس پڑوس میں شیرقورمہ بھیجایا جاتاہے ۔ نماز سے واپسی کے بعد عید کا سلام اور مبارک بادی ایک دوسرے کو دیتے ہیں اپنے سے چھوٹوں کو عیدی دیی جاتی ہے پھر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مرد حضرات عزیز واقارب سے ملنے چلے جاتے ہیں اور خواتین آنےوالے مہمانوں کی ضیافت میں مصروف ہوجاتی ہیں آنے والے مہمان کوشیر قورمہ کھاری سویاں،نہتاری سویاں،چائےیا شربت اور عطر،پان پیش کیا جاتا ہے۔پھر دوسرے دن خواتین اپنے میکے جاکر ملاقات کر آتی ہیں ہر وقت ہر مقام پر سب ہی بہت خوش نظرآتے ہیں۔ عزیز اقارب پڑوسی اپنے پرائےدوست دشمن سب ہی ایک دوسرےکےگِلے شکوے بھولا کرآپس میں َگلےمل لیتے ہیں۔

دل کے رشتے

$
0
0
 
دل کے رشتہ

 قاسم صاحب کو ریٹائر ہوئے تین سال بیت گئے تھے ۔ آج وہ ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں کبھی ہوش تو کبھی بے ہوشی کی حالت میں موت سے لڑ رہےتھے۔ قریب ہی میں (رخشندہ بیگم) گھبرائی ہوئی پریشان سی بیٹھی انہیں تکے جا رہی تھیں۔ امریکہ میں مقیم عنبرین بیٹی کو فون کرنے ہی والی تھیں کہ میرا بیٹا عاصم ایک ہاتھ میں گھر کا ٹفن پکڑے اندر داخل ہوا جسے دیکھ کر میں حیران ہوگئیں۔ "یہ ٹفن کس نے تیار کر کے بھیجا ہے؟"اس سے آتے ہی جھٹ سےسوال کیا۔ ’’وہ امی‘‘ اس سے آگےعاصم کچھ نہ کہہ سکا اور چپ ہوگیا۔ "وہ امی کیا؟"عاصم نے دروزے کی طرف اشارہ کردیا۔ زرینہ کے چہرہ پر آج بھی پہلی ملاقات جیسی بے یقینی، ڈر اور امید کے ملے جلے عکس صاف نظر آرہے تھے ۔ اور بالکل اسی طرح آنکھیں نیچے جھکائے ہوئی، ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔ مجھے آج بھی کل کی بات کی طرح یادآ گئی ۔


 ڈور بیل کی آوازپر میں نے کپڑے ایک طرف رکھ کر درواز کھولا تو کریمن بوا سامنے کھڑی تھی میں انہیں اندر آنے کہہ کر خود صوفہ پر آبیٹھی وہ نیچے بیٹھنے لگی تو میں نے انہیں یاد دلایا کہ میرے پاس بلا تفریق انسان کی قدر وعزت ہوتی ہے۔ کریمن بوا خوشآمدی انداز میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگی۔ آپ کے در پر میں خود کئی مصیبت کے ماروں کو لاکر ضرورتوں کا ازالہ کرواچکی ہوں ۔آپ جیسی نیک بی بی نے کبھی مجھے مایوس نہیں بھیجا کبھی مجھے جھوٹا نہیں کیا ہر بار بھرم بنائے رکھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا کچھ تیز آواز سے میں نے بوا ، بوا کہکرپھر دھیمے سے کہا، آپ بھی تو محلہ بھر کا خیال رکھتی ہیں سب کے دکھ درد میں ساتھ دیتی ہیں ۔۔ اچھا بتاو کیا بات ہے؟ اگر میں کچھ مدد کرسکوں تو ضرور کرونگی ۔ میں بات مطلب پر لے آئی۔ ابھی میری بات ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ بول پڑی کہ "اب مدد تو آپ ہی کرسکتی ہیں ۔ بات دراصل یہ ہے بی بی اپنے محلہ سے متصل کچھ غربا کے مکانات ہیں جہاں مہینہ بھر پہلے فسادات ہوئے تھے ۔دو سال پہلے آپ کے پاس کام کرنے والی نسیم بی اور اس کا بیٹا بھی وہی رہتا تھا جو اسی فساد میں مرگیا ، اس کا آدمی بھاگ گیا ۔پلنگ کے نیچے چھپنے سے بیٹی بچ گئی ۔بستی کےمختلف لوگوں سے بات کرکے ان کے گھر رکھتی رہی ہوں مگر کہیں بھی ٹک نہ سکی کیونکہ اس کو اس حادثہ کے بعد سے دورے پڑنے لگ گئے ہیں۔ پانچ آٹھ دن مشکل سے نکالتی ہو گی کسی ایک جگہ اور دورے ختم ہوتے ہی دوسرے دن مجھے بلا کر ساتھ کر دیتے ہیں۔ آپ بہت محبت والی ہیں اس بے سہارا لڑکی کو آسرا مل جائے گا یہ سوچ کر آپ کی دہلیز تک آئی ہوں ۔آپ کی بچی کا اتران پہن لے گی جھوٹا کھالے گی ۔آپ کے کام میں مدد بھی دے گی۔"بے تکان بولتی بوا کو روکنے میں نے پوچھا ’’مگروہ ہے کہاں"؟ بوا آواز دینے لگی زرینہ او زرینہ۔ وہ آہستہ آہستہ چل کر آرہی تھی بوا نے سلام کرنے کہا اور بتایا کہ یہ بہت اچھی بی بی ہیں۔ تم یہاں بہت خوش رہو گی۔۔ وہ سلام کی جگہ ہاتھ جوڑے کھڑی تھی بہت بھولی پیاری سی لڑکی۔ میں نے اس کو پاس بلایا سر پر ہاتھ رکھا تو نس نس میں ایک عجب سا سکون اور طمانیت محسوس ہوئی ۔۔۔۔


قاسم صاحب کو پردیس فون کرکے ایک اور فیملی ممبر کی آمد کی خوش خبری دی تو وہ بہت ناراض ہوئے پھر میں نے ساری باتیں بتا کر آخر انہیں منا ہی لیا ۔بچوں نے پہلے انجان انجان سا برتاو کیا مگرزرینہ کی ملنساری نے بہت جلدسب کو شیر وشکر کر لیا۔ میں نے بھی اس کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بیٹی کے اسکول میں داخلہ کروانا چاہا مگر نہ ہوسکا تو میں نے اسی کے پرانے اسکول سے پڑھا کر گھر پر ٹیوشن کا انتظام کیا اور پھر میٹرک میں امتیازی کامیابی کے بعد اچھے سے کالج بھی جانے لگی۔ اسے پڑھائی کا بہت شوق تھا وہ پڑھائی کے ساتھ ہی ساتھ لاکھ منع کرنے کے باوجود سب کے کام وقت سے پہلے دوڑ دوڑ کر کرتی۔ میرا بے حد خیال رکھتی ہمارے پاس آنے کے بعد اسے ہسٹیریا کا دورہ ایک بار بھی نہیں پڑا۔ لگتا تھا وہ اپنا ماضی بھول چکی تھی۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرینہ کے گھر آنے کے بعد قاسم صاحب کی یہ دوسری چھٹی تھی کل وہ واپس جارہے تھے۔سب ہی اداس ناشتہ کر رہے تھے۔ زرینہ جلدی سے ناشتہ کر کے اوپر رخشندہ بیگم کے کمرے میں جا کر جلدی جلدی ہمیشہ کی طرح کپڑوں کو استری کرنے لگی۔۔۔ ۔اچانک زرینہ کے زور زور سے پکارنے اور رونے کی آواز کو سن کر میں بھاگتے ہوئے زینہ عبور کر کے اوپر پہنچی تو وہاں کے ماحول نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی۔۔ "یہ کیا کررہے تھے آپ؟"قاسم صاحب کو زرینہ کے قریب دیکھ کر پوچھا تو وہ کہنے لگے "اسے شاید ہسٹیریا کا دورہ پڑا ہے۔۔""نہیں یہ غلط بیانی ہے۔"میں غصہ سے بے قابو ہوگئی۔ قاسم صاحب بنا کچھ جواب دئے واش روم میں چلے گئے میں زور زور سے دروازہ پیٹتی اور کہتی رہیں کہ وہ میری بیٹی ہے ۔تم نے ہمت کیسے کی ۔میں تمہیں نہیں چھوڑنے والی۔۔۔میں نے زرینہ کے رونے کی آواز پر پلٹ کر دیکھا اور بے اختیار ہاتھ کھول کر پاس آنے کا اشارہ کیا ۔سہمی ہوئے زرینہ آ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کے لپٹتے ہی میرے امڈتے ہوئے ممتا کا چشمہ یک لخت سوکھ گیا۔ نہ جانے مجھ میں سے اچانک کیسے نفرت کا دریا ابلنے لگا۔ زرینہ کو پرے ہٹا کر سیڑیوں سے تیزی سے نیچے اترنے لگی ۔



 پھر مجھے یاد نہیں کب قاسم صاحب واپس گئے ۔ بچے کتنا پریشان ہوئے۔ میں کتنی دیر تک سب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تنہا اپنے خیالوں میں گم رہی۔ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں سے دور چلے جانے کا سوچتی تو کبھی دل کہتا قاسم صاحب جیسے بے وفا کی اب مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ مگر جب عنبرین اورعاصم کا خیال آتا تو خود کو مجبور پاتی۔ پھر سوچنے لگی زرینہ کو کریمن بوا کے حوالہ کر دوں۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ آخرمیں بھی تو بنیادی طور پر انسان ہی ہوں، میں ایسا کیوں نہیں کرسکتی ۔ نہیں میں اتنی کم ظرف نہیں ہوسکتی۔ اف یہ ضمیر کے کچوکے بھی کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ بے ضمیر لوگ خود کے لئے جیتے ہیں، جو جی میں آئے کر گزرتے ہیں۔ ہر پل نیکی بدی کا حساب کرتے نہیں رہتے دوسروں کے دکھ درد سے انہیں مطلب نہیں ہوتا۔جب ضمیر جاگے تو انسان کتنا بدل جاتا ہے خود کوایذا پہنچا کر وہ دوسروں کو خوش دیکھتا ہے مگر اپنی ذات سے کسی کو دکھ نہیں ہونے دیتا۔وہ زمین پر رہ کر بھی آسمان ہو جاتا ہے ۔میرا آسمان کی بلندی سے نیچے اترنا محال ہے ۔۔۔  نہیں میں خود کے اور سب کی نظروں سے گر گئی تو یہ زندگی زندگی نہیں ہوگی ۔۔۔۔مگر میرا دونوں ہی سے دل کا ناطہ ہے دونوں ہی کو میں نے بےانتہا گہرائیوں سے چاہا ہے ۔یہ کیسی آزمائش کی ساعت آن پڑی ہے ۔یہ ایک ساعت مجھے ایک صدی لگ رہی ہے کیا اس کے گزرتے ہی سب کچھ ختم ہوجائے گا اور یہ دل کا رشتہ ٹوٹ جائے گا ۔جس کو ہم نے دامنِ دل میں اتنی عمر چھپایا ہے وہ کھو جائے گا۔ وہ پرائی تھی میں نے کیوں اس سے اتنا من لگا لیا ۔نہیں میں نے اسے اپنا مانا ہے وہ پرائی نہیں پھر کچھ سوچ کر میں نے زیرلب بڑبڑایا۔ ہاں ہاں وہ پرائی ہے ۔بیٹی پرائی ہی تو ہوتی ہے ۔


 میں نے زرینہ کو شادی پر راضی کرلیا بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی ۔ وہ اپنے خود کے گھر رہنے لگی ۔میں اور بچے اس کے ہر دکھ سکھ میں اس کے پاس جاتےاس کے بچے کی پیدائش پر بھی ہسپتال میں ساتھ رہی۔ کبھی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ہمارے گھر وہ کبھی نہیں آئی اور نہ میں نے اس سے آنے کو کہا ۔ بہت محبت کرنے والا شوہر اور پیارا سا بیٹا سب ہی کچھ تھا اس کے پاس۔ وہ اپنی زندگی میں خوش تھی ۔آج اس نے میری مشکل کی گھڑی میں خود کی انا ، بے عزتی کے احساس کی پروا کئے بنا ہماری مدد کو دوڑے دوڑے آگئی تھی۔ میں نے زرینہ کے ہاتھ کو چوم کر اسے گلے لگا لیا۔۔ قاسم صاحب کے کراہنے کی آواز پر ہم نے ایک ساتھ ان کی طرف دیکھا تو وہ سرتاپا ندامت ہماری جانب دیکھتے ہوئے ہاتھ جوڑے رونے لگے اور پھر انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں موند لیں۔۔۔




خون پھر خون ہے

$
0
0
خون پھر خون ہے



جب ہمیں کوئی اپنوں سے تکلیف یا نا انصافی ہوتی ہے تو ہم بہت اندرتک دردمحسوس کرتے ہیں ۔ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ خون کے رشتہ کا درد نا قابل برداشت ہواکرتاہے رہ رہ کردل میں اچھے دن یاد کیا کرتے ہیں مگر لب پر ڈھیروں شکایتوں کا دفتر کھولے ہوتےہیں ۔

  یہ رشتے ہمارے پیدا ہونے سے پہلے سے قائم رہتے ہیں ۔ یہ خون کا ہی نہیں اباو اجداد سے بھی جڑا ہوا کرتا ہے یعنی نسل در نسل  اور دلی و دماغی اور روحنی طور سے ہم اس سے جنم سےمانوس ہوتے ہیں  اور لاشعور سے ہی اُن سے پر اعتماد رہتے ہیں پھر جس کو زیادہ عرصہ اور زیادہ چاہا جاتاہے اس کی ہلکی چوٹ بھی گہری لگتی ہےیہ ہی وجہہ ہے کہ درد بہت محسوس ہوتا ہے ۔ اور دیکھا گیا ہے کہ خون کے رشتہ میں ہی زیادہ لڑائیاں ہوا کرتی ہیں ۔اس لئے ایک کرنے کے لئے ہمارے بڑے کہاکرتے تھے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اسی سے ناراضگی کااظہار ہوا کرتاہے۔ اس کی سب سے نرالی بات یہ ہوتی ہے کہ جھگڑے کے بعد بھی کسی غیر سے ان کے بارے میں برا نہ سن سکتے ہیں نہ انہیں تکلیف میں دیکھ سکتے ہیں دوری کے باوجود دل ان کے دکھ سکھ میں شامل رہتا ہے۔ کسی ایک کے پہل کرنے کے محتاج ہوتے ہیں جہاں کسی ایک فریق نے ہاتھ بڑا دیاتو یہ پانی میں لکڑی مارنے کے بعد جیساپانی ایک ہوتاہے ویسے ایک ہوجاتے ہیں ۔ ایسے ہوتے ہیں خون کے رشتےجو توڑنے سے بھی نہ ٹوٹے۔ خون  پھر خون  ہے وہ جوش مارے تو ہر لڑائی ہر ظلم بھلا دے کتنی ہی مسافت پر ہو اسے فرق نہیں پڑتا کتنا بھی طویل عرصہ بچھڑ کر گزارنے کے باوجود ملنے پر دوری، دوری نہیں ہوتی ملتے ہی باہم ایک ہوجاتے ہیں۔ یہ ہوتے ہیں خون کے رشے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
خون پھرخون ہےسوشکل بدل سکتا ہے

بہنوں کو نصیحت

$
0
0

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

میری پیاری بہنوں اور عزیز بھائیوں


اکثر بہنوں سے یہ سنتی آئی ہوں کہ عورت ذات بڑی بد قسمت ہوتی ہے  ۔سب ہی کو بیٹے کی پیدائش کے آرزو مند دیکھا ہے 
اگر وجہہ پوچھو تو کہیں گے کہ بیٹی کے نصیب سے ڈر لگتا ہےاگر اچھے نہ ہو تو ۔۔۔۔ کبھی تو یہ بھی سنا کہ کتنا پڑھ لو لکھ لو نوکری کرلو پھر بھی وہ مجبور و بے بس ہوتی ہے۔ دب کر زندگی گزارنا ازل سے  اس کا مقدر ہے اور بھی اس طرح کے جملے آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں۔میری پیاری بہنوں یوں گلہ کرنے کے بجائے کیا آپ نے سوچا ہے کہ اللہ تعالٰی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم پر کتنے احسان کئے ہیں۔ ہماری فطری شرم و حیا کے مطابق ہمیں باہر کے اموار سے دور رکھا ۔ کمانے کا پرمشقت کام آدمی پرواجب کئے ۔ سب سے زیادہ ماں کی اطاعت کا حکم دیا۔ بیٹی کی تربیت اور شادی کے بدلہ جنت کی بشارت دی۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائے۔  
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے خاوند کے گھر سے کوئی چیز اٹھاتی ہے یا رکھتی ہے اور وہ بھلائی کا اردہ کرتی ہے  تو اللہ تعالی اس عمل کے بدلے اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور جب کسی عورت کا اپنے خاوند سے حمل ٹہرتا ہے تو اس کے لئے رات کو قیام کرنے والے ،روزہ دار اور اللہ تعالٰی کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ثواب لکھا جاتا ہے اور جب بچہ ہوتے وقت تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے تو ہر تکلیف کے بدلے ایک غلام آزاد کرنے اور ہر دودھ پلانے کے بدلے غلام آزاد کرنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے ۔ جب وہ بچے کا   دودھ چھڑاتی ہے تو آسمان سے منادی اعلان کرتا ہے ۔ اے عورت !تونے اپنا گزشتہ عمل مکمل کرلیا اب بقیہ کام کے لئے تیار ہوجا ۔۔۔
حضرت عبادہ بن کثیر بواسطہ عبداللہ حریری ،حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے رویت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اشاد فرمایا میری امت میں بہترین مرد وہ ہیں جو عورتوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں  اور میری امت میں بہترین  عورتیں وہ ہیں جو اپنے شوہر کے حق میں بہتر ہیں ۔ ان میں سے ہر عورت کے لئے روزانہ ایک ہزار شہید کا ثواب لکھا جاتا ہے جس نے اللہ تعالٰی کے راستے میں صبر اور ثواب کی نیت سے جام شہادت نوش کیا ۔اور ان عورتوں میں سے ایک بڑی بڑی آنکھوں والی حور پر ایسے ہی فضیلت  رکھتی ہے جیسے مجھے تم میں سے ادنی آدمی پر فضیلت حاصل ہے اور میری امت  میں بہترین عورت وہ ہے جو اپنے خاوند کی خواہش آسانی سے پورا کرتی ہیں بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو ۔اور میری امت  کے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں ان میں سے ہر مرد کے لئے روزانہ ایک سو ایسے شہید کا ثواب لکھا جاتا ہے جو اللہ تعالٰی کے راستے میں صبر کرتے ہوئے  اور ثواب کی نیت سےشہید   ہوئے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ کیا بات ہے عورت کے لئے ایک ہزار شہید کا ثواب اور مرد کے لئے ایک   سو شہید کا ثواب؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کیا تم کو معلوم نہیں کہ عورت کے لئے مرد سے زیادہ اجر اورافضل ثواب ہے بیشک اللہ جنت میں مرد کے درجات بیوی کے راضی ہونے اور اس کے مرد کےلئے دعا کرنے کی وجہہ سے بلند کریگا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ شرک کے بعد بڑا گناہ عورت کا اپنے خاوند کو ناراض کرنا ہےسنو دو کمزورں کے بارے میں اللہ ربی عالٰی سے ڈرو  بیشک اللہ تعالٰی ان دونوں کے بارے میں تم سے پوچھے گا ایک یتیم اور دوسری عورت جس نے ان دونوں سے حسن سلوک کیا اس نے اللہ تعالٰی اور اس کی رضا پالیا اور جس نے ان سے برا سلوک کیا وہ اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا مستحق ہوا اور خاوند کا حق ایسے ہی ہے جیسے میرا تم پر حق ہے جس نے میرے حق کو ضائع کیا اس نے اللہ تعالٰی کے  حق کو ضائع کیا اور جس نے اللہ کا حق ضائع کیا وہ اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا مستحق ہوا۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی کیا ہی بری جگہ ہے ۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ان کا جہاد غیرت کرنا ہے وہ اپنے نفسوں کے ساتھ جہاد کریں اگر صبر کریں تو مجاہد شمار ہونگی اگر راضی رہیں تو اسلامی سرحد کی حفاظت کرنے والی کہلائیں گی پس ان کے لئے دو اجر ہیں  نیز وہ اس حق کی ادائیگی کا اعتقاد بھی رکھیں جو دونوں میں سے ہر ایک کے دوسرے پر واجب ہے ۔جیسا کہ ارشاد خدا ہے کہ  "اور عورتوں کے لئے  اس کی مثل جو ان کے ذمہ ہے "۔اور یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ دونوں  اللہ کی اطاعت کریں اور اس کا حکم بجالائیں ۔ عورت کو یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ یہ کام اس کے لئے جہاد سے بہتر ہے کیونکہ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عورت کے لئے خاوند اور قبر سے بہتر کوئی چیز نہیں  اور آپ صلی اللہ نے فرمایا وہ شخص مسکین ہے جس کی بیوی نہیں ،عرض  کیا گیا اگر مال کے اعتبار سے غننی ہو؟ آپ نے فرمایا ، اگرچہ مالدار ہو ایسے ہی عورت کے لئے بھی کہا گیا ۔۔
میری بہنوں ان نوازشوں کے عوض میں ہمیں اپنے باپ  اور میاں کی عزت کی رکھوالی کرنا ہے ۔ شرم و حیا کو اپنا زیوار بنانا ہے شوہر کی فرمابرداری اور اسکے آرام و راحت کا خیال رکھنا ہے اگر دیکھا جائے تو آخرت کے ان انعامات کے آگے یہ کام کچھ بھی نہیں پھراچھے ماحول میں اولاد کی نیک تربیت کرنے سے ان کے نیک اعمال بھی آپ کے کھاتے میں ان شاءاللہ جمع ہوتے رینگے ۔  میری بہنوں ! رنگ برنگ کے کپڑے طرح طرح کے فیشن قسم قسم کے کھانے بھائیں بھائیں کے لوگ یہ کچھ کام نہیں آنے والا تمہارے اعمال ہی تمہارے کام آئنگے نماز کی پابندی کے ساتھ قرآن کی تلاوت ایک رکوع ہی کیوں نہ ہو پڑھا کرو۔ اگر ہوسکے تو صدقہ خیرات کرو۔ گھر کے کام جوبھی کرو ثواب کی نیت سے کرو ۔

اللہ ہم مسلمان عورتوں کو عزت اور ایمان کی زندگی اور موت دے ۔آمین   

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم

$
0
0


زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم 


اس کلام حافظ میں نہ جانے کیا بات ہے کہ یہ شعر پہلے یاد کیا جاتا ہے اور بعد
 میں اس کے معنی جاننے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ہمارے بچپن میں ایک گانا سنا کرتے تھےزبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم ۔نمی دانم ۔ نمی دانم ۔نمی دانم۔نم نم نم نم نم ہم عمر کے اس حصہ میں تھے جہاں معنوں کو زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا مگرہندی گانے میں بس ایک لائن الگ آتے ہی ہماری جستجو کی آگ کو بھڑکا گئی اور ہم نے نہ جانے کتنوں سے اس کے معنی پوچھے قریب قریب سب نے ہمیں معنی بتلائیں مگر سب ہی غیر یقینی انداز سے آخر میں ہوگے کا اضافہ کرتے اور ہماری تشنگی کم نہ ہوتی ہم اس سوال کی تلاش میں لگے رہے ۔
ایک دن ہماری
 اردو کی کلاس چل رہی تھی  ٹیچر نے جب سارا سبق پڑھکر سمجھایا پھرپوچھا کہ کسی کو کچھ پوچھنا ہے؟  ہم نے ہاتھ بلند کردئیے تو انہوں نے پوچھا بتاو کیا سمجھ نہیں آیا ؟ تو ہم نےکہا ہمیں اس مصرع کے معنی نہیں سمجھ آتے"زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم"ٹیچر نے ہمیں گھور کر دیکھا کیا سبق میں یہ لکھا تھا ؟ ہم نے آنکھیں نیچی کئے سر ہلا دیا ۔ پھر ٹیچر نے پوچھا کیا یہ فارسی کی کلاس لی جارہی ہے ؟ ہم نے پھر نفی میں سر ہلادیا پھر ٹیچر نے ڈانٹ کر پوچھا کہ یہ بات آپ کے دماغ میں آئی کہاں سے ہم کلاس کے وقفہ کے دوران جن لڑکیوں سے یہ سوال کئے تھے وہ بولنے لگی تو ٹیچر نے مجھے بیٹھنے اور سب کو  ڈانٹ کر چپ کروایا اورپیریڈ کے اختتام پر ہوم ورک کی ساری کاپیاں چیک کرنے کی چپراسی کے بجائے مجھے اسٹاف روم تک ساتھ لے چلنے کی سزا سنائی ۔جب میں نے اسٹاف روم میں احمدی آپا کی بیٹھنے کی مخصوص جگہ کاپیاں رکھی تو انہوں نے مجھے روک کر اس شعر کے معنی بتائے اور سمجھائے تھے۔تب مجھے اس کا دوسرا شعر اور انکے معنی پتہ چلے انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ شعر اتنا عام ہوا کہ اگر کسی کو دوسری زبان نہ سمجھ میں آئے تو اسے کہا کرتے ہیں ایک طرح سے کہاوت بن گئی ہے ۔

 زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم 
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من 
ترجمہ
میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے منہ میں ہو۔​

 بہت پہلے کی بات ہے میں نے نیوز میں پڑھی تھی اسلام آباد میں ترکی وزیرآعظم کی تقریر کے لئے ترجمے کی سہولت نہ ہونے سے پریشانی کا سامنا ہوا اور کچھ ہی دن پہلے میں نے بی بی سی کا ایک بلاگ پڑھا تھا جس میں بلاگر نےتو برازیل کے سفر کی روداد لکھی اور اس میں شکایت کی ہے کہ لوگ اردو انگریزی جانتے نہیں اور صرف فارسی ہی بولتے ہیں۔۔۔۔اسی عنوان سے اردو پوائنٹ پر  محمد بن قاسم کا ایک مزاحیہ تحریر پڑھی بہت لوگوں نے عنوان اسے بنائے تو بہت سوں نے باتوں میں حسن پیدا کرنےاس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔

جب بھی حرم یا کہیں اور میں کسی ترکی کو تیز تیز باتیں کرتے سنتی ہوں تو یہ مصرع دماغ میں گھومنے لگتا ہے اور سوچتی رہتی ہوں کہ جو فارسی جانتے ہیں اور جو نہ جانتے ہیں سب ہی اس مصرع سے خوب واقف ہوتے ہیں ۔

آج تک علماء ایکٹرس سائنس دان ،کھلاڑی ڈاکٹر انجینئر،ناول نگار ماہرے فن وغیرہ وغیرہ کی بھی اتنی شہرت نہ دیکھی اور نہ سنی جتنی مشہوری اس مصرع کی ہے۔


۔۔۔

شاعر کی ڈسمبر میں رونے کی وجہہ

$
0
0

السلام علیکم
  
میرے پیارے بہنوں اور بھائیوں


ون اردو فورم پرآج سے تین سال پہلے ایک تھریڈ بنا تھا جس میں سوال کیا گیا  کیا تھا  کہ شاعر ڈسمبر میں روتا کیوں ہے ؟تو میں نے  بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا تھا ۔ آج وہی تحریر یہاں اس جاتے ہوئے ڈسمبر کو آخری سلام کےساتھ پیش کررہی ہوں ۔
  
سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں عام آدمی کیوں روتا ہے اس کے بعد پھر دیکھے گے کہ شاعر کیوں روتا ہےان دونوں کے رونے کی وجہہ معلوم ہونے کے بعد خود ہی فرق پتہ چل جائےگاہمیں۔
  
میرے خیال میں عام آدمی کبھی ہر روز بڑتی مہنگائی کی وجہہ سے روتا ہے تو کبھی کثیر عیال اس کی وجہہ ہوتی ہے۔ کبھی حصولِ روزگار میں سرگردان ر ہنے کے باوجودملازمت نہ ملے توروتا ہے۔ کوئی ٹیچر کی مار سے روتا ہےکوئی والدین کی لگاتار پڑھاتے رہنے کی تکرار سے روتا ہے۔

کہیں بیٹی کو جلانے کی وجہہ سے روتا ہے اور کہیں کوئی بہو کی ضرب سے روتا ہے۔ کبھی اس وجہہ سے بھی روتا ہے کےجن بچوں پراپنی جوانی،کمائی،محنت ،وقت اور پیار کے خزانہ نچھاور کیے وہ انہیں کو گھر سے بے گھر کرنے لگے تو روتا ہے۔ کوئی پردیسی پیا کے ساتھ کو روتا ہے تو کوئی پردیس میں کام سے تھکا ہارا گھر آکر افرادِخاندان کی یاد میں روتا ہے۔ کوئی پیسے کی افراط سے بیٹے کے ڈگمگاتے قدم دیکھ کر روتا ہے تو کوئی بگڑی بیوی کے مزاج سے تنگ آ کر روتا ہے۔اور کسی کو شوہر کے ظلم کی زیادتی رولاتی ہے۔ کہیں کوئی مالک کے ظلم کا شکار ہوتا ہے تو کوئی مالک کو لوٹ کر بھاگ جانے پر روتا ہے کوئی بیماری کی شدت سے روتا ہےتو کوئی اپنوں کی تکلیف پر روتا ہے کوئی گزرے ہوئے لمحہ کو یاد کرکے روتا ہے کوئی آنے والی پریشانیوں سے گھبرا کر روتا ہے ، کوئی کسی کے غم میں روتا ہے توکوئی کسی کی محبت میں روتا ہے ۔ کوئی آخرت کے ڈر سے روتا ہےتو کوئی خوفِ خدا سے روتا ہے اور بھی کئی ہزار وجہہ ہوسکتی ہیں اب کیا کیا بتائے آپ کو، روتے ہوئے انسان آیا ہے روتے ہوئے ہی چلا جائے گا ۔ سب کو اپنے مقدر کا رونا رونا ہی ہے سب منجانب اللہ سمجھ کر راضی رہیں ہمارے اپنے بس میں کچھ نہیں اس لئے یہ زندگی کے جتنے بھی پل ہیں ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ حقوق کی ادائیگی اور دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے میں ہم لگادیے تو ہر مشکل ،دکھ، پریشانی ،محرومی کےباوجود ایک عام آدمی کا دل مسکراتا رہےگا۔ ۔



اب کچھ شاعر کے رونے کی وجہہ دیکھتےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جب کبھی کوئی درد سے بلکھتا ہے شاعر اس درد کو اپنے دل میں محسوس کرکے بیان کرکے روتا ہے،جب کوئی بھی کسی بھی مصیبت میں ہوتا ہے شاعر بلبلاکر رونے لگتا ہے۔ کوئی کسی پر زیادتی کرے یہ شاعر صاحب ہی ہوتے ہیں جو سب سے پہلےروتے آواز اٹھاتے ہیں۔ کبھی محبت کا پیغام رورو کر دیتے ہیں کبھی ملکی حالات پران کے آنسو نکلتے ہیں کبھی سیلاب پر آنسو کے سیلاب بہاتے ہیں تو کبھی غلط حکمراں کے قصہ سن سن کر روتےاور رلاتے ہیں تو کبھی گرتی انسانیت کو رو کر جگاتے ہیں۔ کبھی مظلوم کی بے کسی انہیں رولاتی ہے تو کبھی سرمایہ دار کااسٹاک انہیں رلاتا ہے کبھی بھوکے،بے لباس لوگوں کی بے سروسامانی پر روتے ہیں تو کبھی بےحیائی وبے حجابی پہ ہیں روتے۔ کبھی امیروں کےبے تحاشا خرچے کا رونا ہےکبھی کسی بے بس کوایک روٹی چورنے پرکڑی سزا دینے کا رونا ہےکیا کیا کہہ انہیں کس کس بات کا غم نہیں ہوتا ۔ یہ کبھی کبھی تو اگر کوئی وجہہ رونے کی نہ ہو توبھی یہ خود پر زبردستی کوئی غم طاری کرلیتے ہیں اورکبھی نہ کی جانے والی محبت کا ذکر بھی بڑے دل سوز انداز میں رو رو کر سنا تے ہیں بے چارے شاعر لوگ ایک اکیلی جان اور زمانہ بھر کا غم شاعرکی جان پر وہ کیا کہتے ہیں ہزاروں آفتیں اور ایک جانِ ناتواں شاعر کی بے چارے سال بھر نہ رویے تو کیا کرےباقی کسر ڈسمبر بھی نکل دیتا ہے بھیگا بھیگا موسم دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں یہ وقت شاید موسم کے رونے کا ہے یہ حضرات کو تو کسی کو اکیلے روتے دیکھنا ایک آنکھ نہیں بھاتا توانہیں یہ موسم اچھا لگنےاورنئی سال کی آمد، آنے والے خوشیوں کی نوید ،امنگوں کی نئی جوت کی وجہ سے رونا نہیں آتا رونا لانے کے لئے یہ دل ہی دل میں اپنے سارے سال کے غم یاد کرکے موسم کا ساتھ دینے رونے لگ جاتے ہیں ۔۔۔۔ارے میں نے ان کا ایک رونے کا ذکر بھول ہی گئی جو ان کو آٹھوں پہرتین سو پینسٹھ دن رولاتااور پریشان کئے رکھتا ہےوہ ہے ان کے لکھے گئے اشعار نہ سنے کا رونا (شاعر حضرات سے معذرت بس یہ سب ہنسی مزاق کے لئے لکھا گیا ہے)۔مختضر یہ کے عام آدمی بے چارہ اپنے ہی غم میں ہمیشہ نڈھال اور شاعر بے چارا خود سے بے نیاز غمِ دورہ میں ہر وقت مبتلا ہوتا ہے۔
یہ سب میں نےشاعر اور غیر شاعر کے غم غلط کرنے لکھا ہے اگر میری اس لن ترانی سے کسی کو تکلیف ہو تو معاف کردیجئے گا۔


نئے سال کی بہت بہت مبارک باد پیشگی پیش ہےاور میری جانب سے سب کے آنے والے دنوں کے لئے ڈھیر ساری دعائیں بہت بہت شکریہ میرے بلاگ پر آنے کے لئے اور وقت دینے کےلئے







۔

توجہ

$
0
0
السلام علیکم

میرے اچهے بهائیوں اور پیاری بہنوں

آج کسی کام سے صبح ہم باہر گئے تهےگاڑی میں میرا چار ماہ کا پوتا میرے گود میں بیٹها تها. میں اسے گاڑی کے باہر دیکهانے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ گلاس  تک ہی دیکه پارہا تها .بہت  دیر تک طریقہ طریقہ سے بتلانے لگی مگر وہ ہے کہ آگےدیکه ہی نہ سکا پهر میں نے ڈور کے بہت قریب کرکے اپنی جدوجہد کو بریک لگا دی - کچه دیر تو وہ ڈور کو گهورتا رہا گهورتا رہا پهر اچانک بازو سے گاڑیاں گزارنے لگی تو اس کومتحرک گاڑیاں  نظر آنے لگی  اور وہ بڑی خوشی سے اب ہر جانے والی گاڑی کو دیکهتا اور مسکراتے جاتا میں بڑی اشتیاق سے یہ سب دیکه رہی تهی اور سوچ رہی تهی کہ کسی بهی علم کا عالم یا کسی ہنر کا ماہر یا سچا مرشد  کی بهی نظر ایسے ہی وسع ہوتی ہے جب وہ ہم کو اپنے علم کو بتانے یا سمجهانے کی کوشش کرتا ہے مگر ہماری کوتاہی کی وجہہ سے ہم  ان کی بات کو سمجه نہیں سکتے  اکثر انکار کرجاتے ہیں اور کچه اپنی جستجو اور توجہ سے کوشش کرتے ہیں  ان کی یہ کوشش رنگ لاتی ہے اوران کی کوشش اور توجہ کی  وجہہ سے محدود نظر کو وسعت مل جاتی ہے .

آپ دیکهے گے کہ چاہئے وہ کوئی بهی علم ہو'توجہ سے ایک معمولی انسان کہاں سے کہاں تک پہچ جاتا ہے کوئی بزرگ اللہ کی راہ پر چلکر اپنی توجہ کو اللہ کی اطاعت میں مرکوز کرکے بہت روحانی ترقی کرلیتے ہیں تو کوئی شکر کو نمک میں تبدیل کرتے ہیں تو کوئی سمندر پرجانماز پچها کر نماز پڑهتے ہیں . آپ نے  ان جادوگروں کو بهی دیکهے ہوگے کہ توجہ کی وجہہ سے ہی وہ کیا کیا کرتب کر جاتے ہیں .

 تلاش معاش  والوں میں بهی انہیں کو منتخب کیا جاتا ہے جن کے نمبرات اچهے ہوں جو مزید وقت و توجہ دے کر تجربہ حاصل کریگے .رشتوں میں بهی ہم ان کا خیال زیادہ رکهتے ہیں جو ہم کو زیادہ توجہ اور محبت دینگے .اسی طرح ہمیں آخرت کے لئے بهی توجہ اور محنت کی ضرورت ہوتی  ہے اسی لئے  دنیا کو دارالعمل کہتے ہیں  ..تهوڑا وقت اور توجہ دیکر نماز پڑهیں اور آخرت کےبڑے عذاب سے بچ جائیں .اسی  طرح دوسرے نیک کاموں کے لئے بهی توجہ اور کوشش سے دنیا کی حقیر چیزوں کے بدلہ اللہ پاک ہم کو عظیم نعمت عطا فرمائے گا -ان شاءا للہ 
بس چاہے وہ دنیا کا کام ہو یا آخرت کا نیک ہو یا بد  توجہ کا محتاج ہے  اچهے کام پر توجہ دینگے تو  اچها ہوگا خراب کام پر توجہ دینگے تو نقصان میں رہوگے . اللہ ہم کو سیدهی راہ پر چلائے .آمین ے .

پاکستان میں پہلا دن

$
0
0



السلام علیکم

میری پیاری بہنوں اور اچھے بھائیوں

آج بہت دن سے چاہتے ہوئے بھی لیپ ٹاپ کی ناراضگی کے وجہہ سے اپنے سفر کا حال لکھ نہ سکی تھی آج ممکن ہوا تو سارے کام پس پشت ڈال کر لکھنے لگی ہوں


پچھلے دنوں میں اور میرے صاحب آٹھ دن کی کوشش کے بعد پاکستان کا ویزہ سعودیہ میں لگواکر چوبیس ڈسمبر تاریک رات میں دو بجے کے قریب ایر پورٹ پرپہچے ۔ بچوں نے بہت ہی اداس چہروں کے ساتھ ہم سے ملکر ہمیں جاتا ہوا دیکھکر ہاتھ ہلاتے رہے ۔


ہمیں پندرہ دن کا ویزہ ملا تھا ۔ سامان چیک کروا کر سامان دے کر پاسپورٹ اور بوڈنگ پاس لئے اور اندر داخل ہوگئے تب تک بھی بچے کھڑے باہر سے ہمیں دیکھ رہے تھے ۔پھر پچیس کی صبح پاکستان پہچ گئے ۔

ایمیگریشن کی لائن میں کھڑے تھے کہ آدھی لائن تک پہچنے پر ہماری نظر انڈین مسافروں کے لئے مخصوص تختی پر پڑی تو ہم اس لائن میں لگ گئے کچھ ہی دیر میں ہمارا بھی نمبر آ ہی گیا میرے صاحب نے پاسپورٹ آگے بڑھیا تو وہ ویزہ وغیرہ کے مزید پیپرز کا مطالبہ کرنے لگے ہم اس بات سے بے خبر تھے کہ پاسپورٹ پر ویزہ لگنے کے باوجود ساری کاروائی پھر چیک کی جائے گی ۔ میاں نے وہ پیپرز سامان میں رکھ دیئے تھے۔مجھے سیٹ پر بیٹھاکر میاں نے اسے نکلا ۔ پھربتلایا گیا ۔ کئی سوالات ہوئے کس لئے آئے ہیں؟ کس نے بلایا ہے؟ بلانے والے کا نام ؟ پتہ ؟ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی ِ؟ کہاں قیام ہے ؟ کہاں سے ویزہ لگا ہے؟ کتنے دن کا ہے ؟۔یہ سب ان پیپر میں لکھا تھا مگر ہم سے بھی پوچھا گیا ۔ جب تشفی ہوگئی تو ہمیں اندر جانے کی اجازات ملی اور ہم سامان لے کر باہر آئے جہاں ہمارے رشتہ دار بہت دیر سے منتظر تھے ۔



سب سے ملے خوب دلی خوشی ہوئی اور دوسروں کے آنکھوں اور زبان سے اپنی آمد کی خوشی دیکھ کر تو مزید خوشی دوبالا ہوگئی ۔


ہم سفر سے تھک گئے تھے جی توچاہتا تھا کہ آرام کرلیں مگر چوبیس گھنٹہ کے اندر رجسڑیسن آفس میں آنے کی اطلاع کرنی تھی میرا بدن سستانا چاہتا تھا اس لئے میرا جانا ضروری ہےکیا پوچھا صاحب چلے جائیں تو نہیں چلے گا؟ تو سب نے مجھے بھی جانا ضروری ہے جتنا جلدی نپٹا لیں یہ کام بہتر رہے گابولے تو بادل ناخوستہ جانا پڑا ۔


بہن کے بیٹے اور دماد ساتھ تھے سب پیپربنانا فوٹو کاپی نکلنا دینا لینے سب بھنجے نے کرلیا اب ڈی سی پی کے کمرہ میں جانا بذات خودملنا تھا مگر وہ اس وقت دروزہ لگا کر تناول طعام فرما رہے تھے ہم باہر رکھی کرسیوں پر سایہ میں ٹھنڈی ہوا میں جہاں اور بھی لوگ اپنے اپنے باہر سے آئےعزیز و اقارب کے ساتھ بیٹھےتھے ۔ سب ہی کےچہرے اپنوں سے دیرینہ ملاقات سے چمکتے دمکتے مسکرارہے تھے اور دھیمی دھیمی سرگوشیاں ماحول کوخوش گوار کررہی تھی ۔ میں سب کو بغور دیکھ رہی تھی میاں بھی باتوں میں محو تھے۔


پھر ہماری حاضری کا وقت آگیا ہمیں اند بلایا گیا سامنے ہمارے عزیز اور ہم دونوں پیچھے تھے قریب جانے پر ڈی سی پی نے بڑے رعب سے زوردار آواز میں دور ہٹنے اور دیوار سے لگے صوفوں پر بیٹھنے کہا ۔ پھر ہمارے عزیزوں سے کس نے بلایا کیوں بلایا کہاں رہتے ہوشناختی کارڈ وغیرہ کے بارے میں پوچھاجب کہ انہیں معلومات کے پیپرز پہلے ہی ملاحظہ کرنے اور ریکاڈ رکھنے دے دیے تھے پھرہمارے طرف توجہ فرما کرنرم لہجہ میں وہ ہی ساری باتیں دوہرا کر پوچھے اور سعودیہ کے قیام کی مدت، جاب،پڑھائی،انڈیا سے کہاں سے تعلق ہے سولات پوچھے جب حیدرآباد شہر کے رہنے والے ہیں بتایا تو مسکرا کر حیدرآبادی بریانی مرجیوں کا سالن وہاں کے بارے میں بڑی خوشی سے باتیں دریافت کرنے لگے ۔میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ میرے پیارے شہر یہ تو تیرے نام کا اثر ہے کہ مشکل وقت کو بھی آسان بنا دیتا ہے جس طرح حضرت علی کے چاہنے والے حیدرکرار پکارتے ہیں اور مدد پہچ جاتی ہے۔


اب کیا تری دیوار کے سائے کا بیاں ہو
کوچے کی ترے دھوپ بھی سایا سا لگے ہے


میں نے چپکے سے دل میں یہ شعر پڑھا اوروہاں سے واپس گھر آنے تک مغرب ہونے لگی تھی۔


جاری ہے

 بلاگ پر آنے کا شکریہ

پاکستان کے یادگار ایام

$
0
0
پاکستان کے قیام کا عرصہ بہت ہی خوشیوں شادمانی اور مصروفیت میں گزرا ۔
 
بھانجی کے بیٹے کی شادی میں خوب شریک رہی بہت اچھی معیاری شادی تھی ۔ ماشاءاللہ دلہا دلہن بہت پیارے تھےانتظام کپڑے لتے سجاوٹ سب ہی بہترین تھی اللہ انہیں خوش و خوش حال رکھے ۔


بڑی بھانجی کی ضد و اصرارپر ہم وہاں گئے تھے ۔انہوں نے ہی ساری کاروائی بلانے کی خوشی خوشی سے کی جس میں ان کے میاں بچوں نے بھی بہت ساتھ دیا۔ ہم انہیں کے گھر مقیم رہے ۔


میرے تیسرے بھانجےامجد نے بھی آنے سے لے کر جانے تک خوب خیال رکھااچھی میزبانی کی اور منا کرنے پربھی تحائف بھی دئے۔


دوسرے بھانجے قدیرانکی فیملی نےمہمان رکھا خوب سیر تفرح کرائی ہر وہ جگہ لے کر گئے جہاں امان بھائی اور ون اردو کے ممبرز نے بتائی تھی اور مجھے یاد رہیں ۔ مزیدارپکوان کھلائے گھر کی مویز دیکھکر انجوائے کیا اورہمیں کپڑے بنائے۔


دوسری اور تیسری بھانجی نے اپنے گھر بھی بلاکر رکھا ان کے میاں بچوں بہت خلوص سے ملے اور بہت کم وقت میں عمدہ چیزیں خریدنے میں میری مدد کی اورتحفے بھی دئیے ۔



بڑے بھانجے لاہورمیں رہتے ہیں ۔ شادی کے لئے آئے تھے۔ میں جہاں بھی رہی وہ آکر ملتے رہےاپنے دلچسپ باتوں سے محظوظ کرتے رہے۔اور بھی بہت سارے حضرات سے ملاقات ہوئی بعض تو ایسے بھی ملے جن سے ملنے کی تمنا دل کے نہاں خانہ میں بند پڑی تھی جس سے کبھی ملنے کی امید تک نہیں تھی جیسے میری چیچا زاد بہن عائشہ ،چیچازاد بھائیاں احد بھائی اور صمد بھائی اور پھوپی زاد بھائی حسین ان سے مل کر مجھے خوشی کے ساتھ حیرت اور تعجب ہوا کہ ہم ہیں تو ایک دادا کی اولاد مگر اتنے طویل عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ میری بہن کی نندیں ،میری بہنوں کے سارے بچے میری بڑی بھانجی  کے دیور اور نند ،چھٹانی کے بھائی رضی اور ان کی بیگم ، ون اردو کی نیٹ کی پیاری سی بہن کم دوست کشور اور انکے بھائی نے آکر ملا اور گفٹ سے نوازا مرحوم بڑی بہن کے صاحب زادے مع محل  آکر بہن کی کمی پوری کی ۔ بہت سارے سسرالی اقارب اور میاں کے آفس کے دوست ، خاص طور سے اپنی بہن جن سے ملنے کی تمنا نے ان سب سے ملاقات کا موقعہ فراہم کیا اور بھی بہت سارے لوگوں سے ملاقات ہوئی بہت اچھا لگا دلی خوشی ہوئی

مگر ہر بار یہ ہی سوچتی رہ گئی کہ یہ سرحدیں یہ فاصلہ یہ دوریاں کیسی ہیں مجبوریاں اپنوں کےدرمیان حائل ہوکر ہمارے دل میں محبت ہونے کے باوجود ہم کو جدا رکھتی ہیں ۔


سب کو ہماری وہاں رہنے کی ُمعینہ مدت بہت کم لگی سب نے بڑھوانے کہا تو چار اور پانچ تاریخ ہمارا ویزہ بڑھانے کی چکر میں گزار گیا اتنے لوگوں نے بڑھانے اپنے اپنے لوگوں کی پہچان سے کوشش کرنے لگے ( وہ لوگ زیادہ لوگوں کی شفارش سے گھبرا گئےشاید یہ میرا خیال ہے ) پاسپورٹ پر سعودیہ سے ویزہ لگنے پر اسلام آباد سے کاروائی کروانا ہوتا ہے کہہ کر ویزہ نہیں بڑھایا اورمیرے ایک ایک بچے بہویں اور پوتا پوتیوں نے الگ الگ آواز ریکارڈ کرکے واپس آجانے پر مجبور کیا۔


ہم نے دوسرے دن پھر رجسڑیسن آفس جاکر اپنے جانے کا اسٹامپ لگانے جلوہ دیکھا نے چلے گئے۔ ساری کاروائی کرنے تک چار بچ گئے۔


ہم ابھی تک رتی بھرشاپنگ بھی نہیں کرسکے تھے اورپھر اتنے لوگ ملنے کے باقی تھےاگر ہم اہم اہم لوگ بھی گنتے تو انگلیاں کی گرہ کم پڑجاتی۔ سب ہی بہت اداس تھے بعض نے تو اتنے کم وقت کے ویزہ سے خفا بھی ہوئے ہمارا دل بھی نہیں بھرا تھا ان سب کی ناراضگی پر ملال سا ہو رہا تھا پر کیا کرتے مجبوری تھی۔ سب کی محبت کو سمیٹ کر واپس جانا ہی تھا ۔


میں خود پہ اوڑھتا ہوں تیرے پیار کی ردا
تو خود پہ میری چاہ کا اُجلا لحاف کر
اس تلخیِ حیات کے لمحوں کا ہر قصور
میں نے معاف کر دیا ۔۔تو بھی معاف کر

جاری ہے


۔

پاکستان میں آخری شام

$
0
0

آخری قسط


جانے سے ایک دن پہلے پیاری کشور کا فون آیا کہ آپی 
آپ رات میرے گھر ڈینر کیجئے گا میں کیسے ہاں کرتی جب کے ایک دن پہلے بہن کےسب بچے بڑی بھانجی کے پاس جہاں میں ٹہری ہوئی تھی جمع ہونے کا پروگرام بنایا ہواتھا ۔ میں کشور کی والدہ محترمہ سے فون پر بات کرکے انہیں اپنی مصروفیت کے بارے میں بتایا کتنا وقت کم ہے اور بہت کام باقی ہیں وہ بہت ہی مخلص لگی بڑی متانت سے بات کی جب میں نےان سے کہا کہ اگر کشور ہی میرے پاس آجائے تو میرا بہت وقت بچ سکتا ہے وہ بڑی اچھی بی بی ہیں میری بات کو سمجھکر مغرب تک بھیجنے کا اردہ ظاہر کیا تو میں پھر ایک بار شش و پنچ میں آگئی پھر میں نے بلا وقفہ کہ انہیں بتایاکہ مجھے مغرب پر کہیں اور جانا ہے ۔وہ مغرب سے پہلے کشور کے ملاقات کا وقت طے ہوا اور ہم رجسٹریشن آفس سے نکل کرہم دونوں الگ رہ اختیار کی میں دونوں بھانجیوں کے ساتھ شاپنگ کو چلے گئی اور میاں اپنے آفس کے ساتھیوں سے ملاقاتوں کے لئے بڑی بھانجی اورانکےمیاں کے ساتھ چلے گئے ۔



جلدی جلدی سارے بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ خریداری کی ابھی خرید ہی رہے تھے کہ صاحب کا فون آیا کہ تمہاری دوست گھر سے نکل چکی ہے جلدی سے تم بھی آجاؤں پھر ہمیں جانا بھی ہے ۔ ہم نے شاپنگ کو دی اینڈ کہا مگر اچانک ہماری فیملی کے نئے ممبر جو پانچ ماہ پہلے شامل ہوئےداماد کے لئے کچھ بھی تحفہ نہیں لینے کے خیال کے ساتھ ہی ہم نے فوراً فیصلہ کیا کہ گھر پر جانا ضروری ہے میری ایک بھانجی جوداماد کا کرتا خرید کر اپنی گاڑی میں واپس چلے جائے گی پھر رات میں آکر ملے گی اور چھوٹی بھانجی کے ساتھ میں نے پاکستان کے پندرہ دنوں میں پہلی بار آٹو میں بیٹھکر گھر کی رہ لی راستہ میں فون آیا کہ کشور آچکی ہیں ہم ویسے ہی اندر سے بے چین تھےپہلی بار کسی نیٹ کی سہیلی سے مل رہے تھے اس فون نے ہمارے سارے بند توڑ دیے اور میں بار بار ابھی کتنی دیر ہے پوچھ پوچھ کربھانجی کو بہت تنگ کیا ۔
 
بڑی دعاؤں ارمانوں اور تمناوں کے بعد کشور سے ملنے کی خواہش پوری ہونے والی تھی۔ پتہ نہیں ایک عجیب سی بے چینی تھی ناجانے کیسا لگے گا ملکر۔ صبح آٹھ بجے کے گھر سے نکلے تھکے ہوئے برقع نے اور ادھ مرا کردیا تھا۔ شوپنگ کا ٹنشن کمر توڑ گیا تھا، وقت کی کمی کا احساس کھایا جارہا تھا، پیکنگ کی فکرالگ تھی، لمبے سفر کی ذہنی تیاری اوربہن کی جدائی کا غم ،گھر اور بچوں سے ملنے کی مسرت کئی ملے جلے احساسات
میں، میں گھری ہوئے تھی ۔


اللہ اللہ کرکے گھر آگیا
برقع اتارکر ایک طرف رکھا شاپنگ بیگس دوسری طرف رکھے ابھی منہ پر تھوڑا پانی مارکر تازہ دم ہوجاؤں سوچا ہی تھا کہ میاں اور بہن نے کشور سے جاکر جلد ملو بے چاری تمہارا انتظار کررہی ہے کہا تو ویسے ہی میں نے ہینڈ بیگ ایک طرف ہٹا کررکھا اور کشور سے ملنے ڈرئنگ روم میں چلی آئی جہاں وہ اپنے بھائی کے ساتھ جلوہ آفروز تھی مجھے دیکھتے ہی کشور بہت پیار سے ملنے آگے بڑھے اور میں خود کو روک نہیں پائی انکو گلے سے لگا لیا ۔ان کے بھائی نے بھی بڑے ہی اخلاق کامظاہرہ کیا وہ سارا وقت کبھی مجھے دیکھتے تو کبھی کشور کو جب بھی میں نے بھائی کی طرف دیکھا وہ زیر لب مسکراتے نطر آئے ۔انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ماشاءاللہ سے حافظ قرآن ہیں تعلیم میں وقت دینے سے قرآن کو دہرانے اور حفظ برقرار رہنے دعا کرنے بھی کہا اللہ انہیں اپنے مقصد میں کامیابی دے ۔

میری اور کشور کی خوشی مشترکہ تھی ہم دونوں اتنے خوش تھے کہ ہمیں بات کرنے الفاظ نہیں مل رہے تھے بس زیادہ تر ایک دوسرے کو دیکھے جارہے تھے ہنسے جارہے تھے خود کو یقین دیلانے بات کرنے کی کوشش کررہے تھے میں نے بعد میں سوچا تو سمجھ آیا کہ لوگ سچ ہی کہتے ہیں محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی


اس مختصر ملاقات میں میں کشور کو دیکھتی اور محظوظ ہوتی رہی کبھی ان کی ریشمی آواز میں گم ہوتی تو کبھی ذہین آنکھوں میں جھکتی اور کبھی موہنی صورت کو تکتی اور کبھی لباس کی پاکیزگی اور ڈوپٹہ کے بندھنے کے انداز سے متاثر ہوتی۔میں نے ایک بار انکے پڑھے لکھے قابل ہونے کی تعریف کرنے پر اور ایک بار انکی اچھی اچھی تحاریر کی تعریف کی تو وہ بہت عمدگی و انکساری سے ٹال گئی ۔ بہت ملنسار، سادگی پسند،ہنس مکھ نازک سی بہنا ہیں ۔میرے ساتھ ساتھ میاں بھی ان سے ملکر خوش تھے ایک وجہہ ان کی خوشی کی یہ تھی کہ وہ میری ساس کی ہم نامی ہیں دوسری وجہہ کشور کی بات چیت انداز تہذیب سے متاثر ہوئے۔

میں محسوس کررہی تھی کشورکے دل میں ایک ساتھ بہت سارے خیالات اور سوالات چھپے تھے میں نے دل ہی دل میں کہا میں سارے جوابات دہنا چاہتی ہوں میں ہر خیال پر تفصیلی بات کرنا چاہتی ہوں مگر وقت کم ہے ہم یہ سب نیٹ پر بھی شیئر کرسکتے ہیں مگر مل نہیں سکتے اس لئے ہم نے تصویر لے لی کہ یہ یاد زندہ رہے میں نے کشور کے قریب بیٹھ کر انہیں دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کی مجھے لگا یہ میری ننھی منی سی بہنا ہے یہ میری بیٹی ہے جو کچھ دیر میں مجھے سے پھر دنیا کی بھیڑ میں جدا ہوجائیگی میں نے خود سےکہا جتنا ساتھ ہے غنیمت ہےجتنا وقت سمٹ سکتی ہوں سمٹ لوں

بعض بہت اچھی یادیں اور بہت قیمتی لمحے ہوتے ہیں کچھ ہماری زندگی میں جو گزار تو جاتے ہیں مگر وہ امر ہوجاتے ہیں ۔ جس کا جتنا بھی اللہ کا شکر کریں کم ہے اللہ میرے پیاروں پر ہمیشہ کرم فرماتے رہے انہیں ڈھیروں خوشیاں دے۔ ہمارے پاس وقت کم تھا مجھے پھر دوسری جگہ ملاقات کو جانا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں جدا ہونا تھا میں اندر ہی اندر بہت بے چین ہوئی کشور کو جاتا دیکھ کر دل کرتا تھا کہ دروزے سے نکل کر سیڑیوں سے نیچے تک چھوڑ آوں مگر کب تک ساتھ رہ سکتی تھی الگ تو ہونا ہی تھا جب تک نظر آئے دیکھتی رہی اور محسوس کرتی رہی کہ کشور ذہنی طور سےبہت دیر تک میرے ساتھ رہیں ہیں ۔۔۔۔۔

نیٹ کےکراچی میں رہنے والے اور بھی دوستوں سے ملنے کاخیال تھا جو پورا نہ ہوسکا جیسے ون اردو کی مانوگھر سے باہر تھی اسی لئےصرف فون پر بات ہوسکی۔ ون اردو کے امان بھائی ،بلاگروقار اعظم،بلاگرشعیب صفدر بھائی سے ملنے کو من تھا مگر ان سےربطہ قائم کرکے اجازات لینے کاسوچتی رہ گئی موقعہ ہی نہ ملابلاگر اسریٰ غوری کو میسج کیا تھا مگر جواب نہ ملاشاید وہ دیکھی نہیں ایک اور فیس بک کی اچھی سی دوست شاہدہ حق ان سے فون پر بات ہوئی اور ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی۔ جس سےملے اور جس سے نہ مل سکے اللہ ان سب کو شاد و آباد رکھے


مغرب کے وقت پر میرے سسرالی رشتہ دار وقت کی کمی کی وجہہ سے ایک جگہ جمع ہونے والے تھے ۔ تیار ہونے کا صبح ہی سے وقت نہیں مل رہا تھااسی حالت میں فوراً برقع پہن کرمیاں بہن اور انکے داماد کے ساتھ نکل پڑی وہاں بھی صاحب اور میزبانوں نے بچپن کی یادیں بزرگوں کی وفات کے تذکرہ وگزشتہ حالات کی باتیں کرتےرہے اور کئی چیزوں سے ضیافت کے بعد جانے کی اجازات ملی ۔


گھر آتے ہی ہم نے پیکنگ کی اسی دوران ایک کے بعد ایک بہن کے سب بچے آنے لگے سب نے ملکر کھایا پیا اور بہت دیر تک ہنستے بولتے بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ بہت یادگار بیٹھک رہی ہم نے کیمرے میں بھی کچھ باتیں ریکارڈ کرلیں تین بجنے پر سب اپنے اپنے گھر کی رہ لی کہ صبح آٹھ بجے ایر پورٹ بھی توجانا تھا ہم نے اپنی باقی پیکنگ پوری کرلی بستر پر لیٹے تو نیند کوسوں دور تھی کئی باتیں دماغ میں آنکھ مچولی کھیل رہی تھی میں نے سب کو چھٹک کرطبعیت صاف کی اور سو گئی ۔ صبح بہن کی آواز روح میں اترتی محسوس ہوئی وہ مجھے بیدار کررہی تھی۔ ایک لمحہ کو لگا تیس پیتیس سال پیچھے چلی گئی ہوں اور امی مجھے آواز لگا رہی ہیں ۔ جلدی جلدی بڑی بھانجی نے ناشتہ بنایا کھلایا ۔ بھانجے بھی آگئے وہ اوربہن کے بڑے داماداشفاق نے اپنی گاڑی میں ہمیں ایر پورٹ تک لاکرچھوڑا سامان کے ساتھ ہمیں اندر جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔

ہم نے اپنا سامان ڈالا کلیر ہونے کے بعدجانے لگے تو بتایا گیا کہ پلین دو گھنٹہ دیر سے جائے گا ۔ ہم اندر جاکرانتظار کرنے لگے بے کارہی کبھی اس مسافرکو دیکھتی تو کبھی کسی دوسرے کا نظارہ کرتی بیٹھی رہی جب دو گھنٹہ ہونے کو آئے تو صاحب نے جاکر پھر دریافت کیا تو پتہ چلا کہ اور تین گھنٹے دیر سے جانا ہوگا ۔ سعودیہ سے کئی بار پرواز کیا ہے یہ پہلا اتفاق ہے کہ پلین اتنے گهنٹے لیٹ ہے .شاید کچه دیر اس سر زمین پر کهڑا رہنا ہے یہاں کی ہوا کهانی اور پانی پینا ہے سوچکرجانے کے منتظر رہے۔

بھوک اور تھکن محسوس ہونے لگی ایر لائن والوں نے لنچ کا انتظام کیا تھا ہم نے بھی نام لکھوایا اور کھانے کے بعد آگے سفر کے لئےکچھ تقویت پائی ۔اب کرسی پر برجمان اطراف نظریں دوڑتی رہی تو کبھی فون پر نیٹ سے دل بہلاتے رہے کبھی اِدھر اُدھربے مقصد چکر کاٹے تو کبھی آنکھیں بند کرکے کرسی پر آرام کرنےکی کوشش کرتی رہی غصہ بھی آتا کہ جب ہم اپنوں کے ساتھ تھے تووقت َپرلگا کر اُڑرہا تھااور اب وقت جیسے بھاگتے بھاگتے تھم سا گیا تھا۔ ُسستانے رکا ہوا تھا ۔ چاہتے ہوئے ہو یا نہ چاہتے ،وقت کے ساتھ تو چلنا ہی ہوتا ہے۔ بلاخر روانگی کا اعلان ہوا جسے سنتے ہی ہم نے پلین کی رہ لی سیٹ تک پہچتے پہچتے ہمیں خیرمعمولی طور پر دو بار چیک کیا گیا ۔ ہم تو سیٹ تک آنے میں پھرتی دیکھائے مگر دوسرے لوگوں کی چیکینگ ہوتے ہوتے ہمارا دم گھٹتامحسوس ہورہا تھا ۔ پلین پرواز کرنےلگا ۔ کچھ کم پانچ گھنٹہ میں دمام ایر پورٹ پہچ گئے۔

ساڑهے آٹه کے گهر سے نکلے تهکے ماندهے مسافر غروب ہوتے سورج کے ساته دمام ایر پورٹ پہنچ گئے۔ سورج توبہت آگےاپنی منزل کی رہ جاچکا ہم یہاں اپنے سفر کا راستہ تلاش کرتے رہے گئے.بس سمجهیں کہ ہاتھی نکل گیا دم اٹک گئی ۔ منزل کے قریب پہچ کرمسافراتنا تھک جاتا ہے کہ اس کو ہمت سمیٹنے کا اصل یہ ہی وقت ہوتا ہے۔ باہر آئے سامان لیا دوسری لائن میں کھڑے رہے کراچی سے پلین لیٹ ہونے سے پھر میاں نے دمام ٹو جدہ کی سیٹ کےلئےکوشش شروع کردی ایک گھنٹہ کے انتظار کے بعدہم پھر ہوا کے دوش پر سوارتھے۔ گھر بچوں سے ملنے کی خوشی لیے جدہ ایر پورٹ اترے۔

بچوں نے خوب خوب لپٹ کر محبت کا اظہار کیا گاڑی میں سے ہی پاکستان کے رشتہ دار اور وہاں کی ایک ایک چیز کے بارے میں دریافت کرنے لگے ۔ اب بھی کبھی کبھی کوئی بات پوچھ کر مجھے یاد دیلادیتے ہیں ، بہن کا وہ نورانی چہرہ اور پاکستان کی یادیں وہاں کے لوگوں کا پیار آنکھوں میں سما جاتا ہے۔ 

وقت رخصت جو مجھے پیار سے دیکھا تم نے

اس سے بڑھ کر مرا سامانِ سفر کیا ہو گا




۔

پیدائشی مقصد

$
0
0



ہم بچپن سے یہ سنتے اور پڑهتےآئے ہیں کے ہماری پیدائش کا مقصد اللہ کی
 عبادت کر نا ہے ہم کماتے ہیں کهانے پہنے ضرورت زندگی کی تکمیل کے لئے اور کهاتے ہیں تو بدن کی طاقت قوت ، تندرستی وتشو نما کے واسطے .اب ہم کو چائیے کہ اس طاقت قوت کا صحیح استعمال کریں .جس نے اس جسم کو پیدا کیا اس کو ناتواں سے توانائی دی تو ہم پر فرض ہے کہ سب سے پہلے ہم اللہ کا حق ادا کریں پهر اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کے حقوق جو ہم پر اللہ نے لاگو کئے ہیں ان کوادا کرنے کی کوشش کریں

مولانا عبدالقدیر صدیقی رحمتہ علیہ فرماتے تهے
تم اللہ کا کام کرو وہ بهی تمہارا کام کردے گا . ومن یتوکل علی اللہ فهو حسبہ (الطاق، آیت 3) ترجمہ : اور جو اللہ پر
بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے .


کیا ہی اچهی بات کہی ہے جس کا اللہ ہوجاے پهر اسے کسی غیر اللہ  کی کیا ضرورت .اللہ کو راضی کرنا ہے تو ہمیں اس کے احکام کو بجا لانا ہوگا . ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آج مسلمان اللہ کے حکم کی پاسداری نہیں کرتا  دنیا میں مشغول ہوگیا ہے اسی لئے ہم جگہ جگہ ظلم کا شکار ہورہے ہیں .جب تک ہم اپنی حالت نہیں بدلتے تب تک عزت و امان سے رہنا دشوار ہے .اس لئے میرے اچهے بهائیوں اور بہنوں ہم اپنا پیدائش کا مقصد یاد رکهے  .اللہ کی بندگی میں سر خم  کرینگے تب ہی ہمیںہر کام میں کامیابی ملے گی  

کچه یاد خدا کر لے بابا 
جو بهول گئے پچھتائو رے

مفید ماہ

$
0
0

رمضان کا مہینہ بڑا برکتوں کا ہے 
پیغام مومنون کے لئے رحمتوں کا ہے



رمضان المبارک عبادتو ں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ دنیا کے ہر مسلمانوں کے
 لئے یہ خاص مہینہ روحانی قوت مہیا کرتا ہے. رات کی نیند کی قربانی دے کر سحری کی جاتی ہے ۔دن کے اوقات پر کھانے پینے سے خود کو اللہ کی خوشنودی کے لئے روکتے ہیں اس سے غریب مسلمان کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں ہمدردی اور انسانیت کے جزبہ کو ترقی ہوتی ہے ۔خود ہماری صحت کے لئے بھی فائدہ مند ہے ۔رمضان میں ہر نیک کام کا اجر اللہ پاک بڑاکر دیتے ہیں روزہ کا اجر تو اللہ ہی دینے والا ہے اور وہ سب سے زیادہ دینے والا ملکِ حقیقی ہے ۔ خوب اس سے سوال کریں اللہ کو دعا کرنا پسند ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ بنا کسی وجہہ کے روزہ نہ چھوڑیں ۔اس کی قضا بھی کردیں تو بھی خسارہ پورہ نہ کرسکے گے ۔رمضان کے اس برکاتوں رحمتوں والے مہینہ میں خوب خوب مستفید ہوں۔اس ناچیز کو بھی اپنی دعا میں یاد رکھیں

محبت اور نظر

$
0
0
محبت اور نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کل رات  افطار کے بعد مجھے بہو کے ساتھ ہاسپٹل جانے کا اتفاق ہوا  وہاں پر ویسے تو بہت سارے جوڑے ڈاکٹر کے منتظر  نظر آرہے تھے مگر ان میں ایک  بہت ہی نمایا سا جوڑا تھا ۔یا مجھے لگ رہا تھا  ۔ جو نو بیاہتا  معلوم ہوتا تھا  جب وہ لوگ نام لکھانے لائن میں کھڑے تھے ۔ میں دور بیٹھی انہیں پہلی بار دیکھی تھی تب میاں اپنی بیوی کے بہت ہی قریب کھڑا جھک کر سر سے سر لگا کر سرگوشی کرتا تو کبھی جھک کر کانا پھوسی کرتا رہا اور جب کرسیوں پر ہم آکر بیٹھے تووہ سامنے کی کرسیوں پر بیٹھے شوہرنامدار بیوی کی کرسی کے پیچھے ہاتھ رکھےنہ جانے کس بات پر  ہنس رہے تھے اور بیوی خاموش سیل کو دیکھے جارہی تھی۔ پھر میاں نے کمر کی قریب ہاتھ سرکاتے  بیگم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے کچھ کہا ہمارے درمیان کچھ فاصلہ  تھا اور آواز دھیمی تھی سنے تو کچھ نہیں آیا مگر میں انہیں دیکھ کر محظوظ ہوتی رہی اور سوچتی رہی کہ اس طرح جائز محبت کو دیکھنے سے بھی دل میں خوشی و پاکیزگی کا احساس رہتا ہے اس کی جگہ اگر کوئی نامحرم ہونے کا شبہ بھی ہو ،تو دیکھ کر کوفت سی ہونے لگتے  ہے یہ لڑکی شاید پپلیک کی جگہ ہونے سےمیاں سے انجان ہے یا ان کے درمیان کہا سنا تو نہیں ہوگیا ؟یاپھر یہ لڑکی اس لڑکے کو پسند نہیں کرتی ؟ نہیں نہیں یہ تو اس لڑکی سے بھی زیادہ خوبرو گورا سجیلا نوجوان ہے پھر پھر  ۔۔۔۔۔۔  ان سوچوں میں گم تھی کہ مجھے یوں دیکھتا اور سوچتا دیکھ کر میری بہو نے خود  ہی بتایا کہ امی جب یہ لڑکی میرے ساتھ لائن میں کھڑی تھی نا تب فون پر بتا رہی تھی کہ مما میرے پاس کوئی 
     خوشخبری نہیں ،ہم ڈاکٹر سے مل کر آنے تک دیر ہوجائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے آگے میں کچھ نہ سنی پھر خیالوں کی دنیا میں لوٹ آئی ۔

میں سوچنے لگی محبت تیرا ہر رنگ خوبصورت ہے تو دکھ میں بھی اچھی 
 لگتی ہے اور سکھ میں بھی، تیری بے رخی بھی پرکشش ہے اور اظہار بھی 
اچھا لگتا ہے ۔ دیکھنے میں اور کرنے اور پانے میں بھی تیرا جواب نہیں ۔

زند ہ باد، زندہ باد اے محبت تو زندہ باد



Viewing all 90 articles
Browse latest View live